مجھے بچپن سے ہی مشینوں سے لگاؤ ہو گیا تھا۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے کب سے مکینکی شروع کر دی تھی لیکن اتنا یاد ہے کہ جب میں کچھ سمجھدار ہوا تو اس وقت سے ہی چیزیں کھولتا اور جوڑتا تھا۔ اور اکثر میں اس میں کامیاب بھی ہو جاتا تھا۔ ایک دفعہ جب میں آٹھویں میں پڑھتا تھا میرے ایک دوست نے استادی دیکھاتے ہوئے اپنا کیمرہ پیچ ٹو پیچ کھول دیا۔ لیکن اس سے بند نہیں ہوا تو وہ میرے پاس لیے آیا میں نے پہلےکبھی اس کیمرہ کو مکمل نہیں دیکھا تھا لیکن اپنے اندازے سے جوڑا جس میں میں کامیاب ہو گیا اور وہ کیمرہ کام بھی کرتا رہا۔
میرے بڑے چچا ہر فن مولا ہیں۔ وہ ہر طرح کا کام کر لیتے ہیں۔ شاید میں ان کو دیکھ دیکھ کر ہی ایسے کام کرنا شروع ہوا تھا۔ لیکن میرے چچا نے میری کبھی بھی تعریف نہیں کی تھی۔ وہ اکثر مجھے ڈانٹتے ہی رہتے تھے۔ ایسا نا کیا کرو کچھ ہو گیا تو کون جواب دہ ہو گا۔ لیکن میں باز نا آتا۔ اسی بات کا فائدہ چھوٹے بھائی اور بھابھی جی نے اٹھایا۔ چچا جی کے گھر جو کیبل لگی ہوئی تھی اس کا جوڑ ہمارے چھت پر تھا جب چچا کی کیبل خراب ہوتی چچا ہمارے گھر آتے اور کہتے کہ کل سے کیبل خراب ہے میں وہاں موجود ہوتا یا نا ہوتا بھائی اور بھابھی فورا کہتی کہ خرم لگا ہوا تھا اسی نے کچھ کیا ہوگا۔ بس پھر کیا ہوتا جب میں گھر آتا تو چچا جی ہٹلر کی طرح کھڑے ہوتے اور میری کلاس لینا شروع کر دیتے۔ اور کبھی کبھار منہ بھی سرخ کر دیتے۔ میں منہ لٹکائے بیٹھا رہتا اور وہ دونوں ہنستے رہتے۔
اب وہ بات سناتا ہوں جس کے لیے یہ ساری کہانی سنانی پڑی جی ہاں وہی بات جس کی وجہ سے مجھے ”نیوٹن کے بیٹے “کا خطاب ملا۔ گھر میں بجلی والی استری خراب تھی۔ استری کی تار اتری ہوئی تھی۔ میں نے اس کو اسٹور روم میں رکھا ہوا تھا ۔یوں تو یہ چھوٹا سا کام تھا میں خودبھی کر لیتا تھا لیکن تار خریدینے کے لیے جانا تھا۔ اسی دن شام کو گیس والی استری بھی خراب ہوگئی۔ میں نے ان دونوں کو ایک ہی جگہ رکھ دیا اور امی جی کو کہا کہ شام کو جاؤں گا ان دونوں کو ٹھیک کروا لوں گا۔ میں گھر سے باہر گیا ہوا تھا۔ پیچھے چھوٹے بھائی نے اور بھابھی نے میری کلاس کے لیے ایک پلان بنا یا ہوا تھا۔ اور اس پر عمل بھی کر چکے تھے۔ شام کو جب میں گھر آیا تو چچا جان پہلے سے ہی موجود تھے۔ مجھے دیکھتے ہی شروع ہوگے اور میری کلاس لینا شروع ہو گے۔اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے کون سی غلطی کی ہے جس کی وجہ سے چچا آج پر غصے میں ہیں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی لیکن میں نے دیکھا بھائی اور بھابھی مسکرا رہے تھے۔ مجھے پتہ چل گیا یہ ان دونوں کی کارستانی ہے۔ میں خاموشی سے چچا جان کی ڈانٹ سن رہا تھا۔ چچا نے آخر میں مجھے خطاب دیا ”وڈا آیا نیوٹن دا پتر“یہ کہنے کے بعد چچا چلے گئے اور میں سوچتا رہا کہ ہوا کیا ہے؟ چچا نے کیوں اتنی کلاس لی ہے۔ تو پتہ چلا جب چچا نے دیکھا گیس اور بجلی کی استریاں خراب ہیں تو پوچھا کیا ہوا تو بھابھی اور بھائی نے چچا کو کہا یہ خرم کہہ رہا تھا ان دونوں کو ملا کر ایک استری بناؤں گا جو گیس سے بھی چلے گی اور بجلی سے بھی چلے گے۔
ارے یہ بات تو میرے فرشتوں کو بھی نہیں پتہ تھی جس کی وجہ سے اتنی کلاس اور اور نیوٹن دا پتر خطاب ملا۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]