میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔۔۔

محبت و نفرت کی یہ کہانی بھی عجیب ہے ۔ہم بہ یک وقت امریکا سے نفرت بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی” گرین کارڈ“ کے حصول میں اپنی زندگی کے بہترین شب و روز اپنی پیشانی پر ”برائے سیل“ کی تختی آویزاں کیے نیلام کیے دیتے ہیں۔ بزرگ کہتے ہیں کہ :” جس گھر میں بیری ہو پتھر تو آتے ہیں۔“
 لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہوا ۔باقاعدہ پیغام آئے ۔ ایک پیغام روس کا تھا اور دوسرا امریکا کا ۔ ہم نے روس کے ہاتھ کو حقارت سے جھٹک دیا اور امریکا کا بازو تھام لیا۔امریکیوں نے ہمیں سکھایا کہ ”سوشلزم نوخیز مملکت ِ خداداد کے لیے زہر ِ قاتل ہے۔“ سو ہم اسکولوں میں پاک چین دوستی کے ترانے گاتے رہے اور سڑکوں پر سوشلزم مردہ باد، روس مردہ بادکے نعرے لگاتے رہے۔ امریکا نے ہماری بے لوث محبت کو اپنے ازلی دشمنوں کے خلاف خوب استعمال کیا۔ کبھی روس کے خلاف ، کبھی افغانستان کے خلاف اور کبھی طالبان کے خلاف اور کبھی اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف۔ پھر وہ بھی دن آئے کہ ہم امریکا کی لڑائی لڑتے ہوئے بہت آگے نکل گئے اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو امریکا بہادر اپنے بحری بیڑوں سمیت رفو چکر ہو چکا تھا۔ ہم نے اس دھوکے کے باوجود محبت اندھی ہوتی ہے کے مصداق اپنے اس یقین کو مستحکم رکھا کہ تھوڑی سی بے وفائی کے باوجود امریکا ہمارے ساتھ رہے گا۔ سو ایک بار پھر جب اُس نے کہا کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا دشمن کے ساتھ۔ تو ہم نے صدق ِ دل سے کہا کہ حضور ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ چنانچہ ڈالرایک بار پھر برسنا شروع ہو گئے لیکن اس کے ساتھ ”ڈو مور“ کے مطالبات بھی ہوتے رہے اور ڈرون بھی برستے رہے۔ جن لوگوں کو امریکا بہادر نے خود پال پوس کر بڑا کیا آج اگر وہ اسے آنکھیں دکھانے لگے ہیں تو اس میں ہماری محبت کو شک کی نظر سے دیکھنے کی گنجائش کہاں سے پیدا ہو گئی۔ ہم اس یک طرفہ محبت کی قیمت کئی ہزار قیمتی جانوں کی صورت میں پہلے ہی ادا کر چکے۔ جنگ کسی اور کی ہے اور سرزمین ہماری جل رہی ہے۔ ہمارے ہنستے بستے شہر بارود کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کیا ہم امریکا سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ    ؎ 
سنو کہ اب ہم گلاب دیں گے، گلاب لیں گے
محبتوں    میں   کوئی   خسارہ   نہیں   چلے   گا

مضمون نگار :       فاضل جمیلی
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]