میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

آخر مسئلہ کیا ہے!!!

ان دنوں میں بری طرح کنفیوز ہوں۔ امریکا بہادر کی باتیں مجھے کم ہی سمجھ آتی ہیں۔ کبھی صاحب بہادر عرب میں سالہا سال سے اقتدار پر قابض حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ وہ عوام کی خواہشات کا احترام کریں تو کبھی خود ان کی فرمائش عوامی خواہشات سے متصادم ہوتی ہے۔
 ”بہارِ عرب Arab Springکے بعد مختلف ممالک میں نئی قیادت کے غلبے پر امریکاسمیت مغرب کا ردعمل میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ وقت بھی تھا جب امریکا اور اس کے حواری دنیائے عرب کی نام نہاد قیادت کے خلاف پروپیگنڈا کرتے نہیں تھکتے تھے اور اب وہاں کے لوگوں نے خودجنہیں منتخب کرنا شروع کیاہے اس انتخاب پر دکھ اورغم سے ان کے کلیجے  پھٹے جا رہے ہیں۔پہلے والے غلط تھے تسلیم،مگراب عوام جنہیں اپنے لئے منتخب کریں ان پراعتراض کرنے کامطلب ؟
تیونس سے اٹھنے والی عرب بیداری کی لہر اب امریکا اور اس کے دوستوں کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے۔ تیونس میں تبدیلی کے لئے اپنی جان قربان کرنے والے ایک نوجوان کی قربانی سے اٹھنے والی بیداری کی لہر نے جہاں مغرب نواز ”زین العابدین“ کا بوریا بستر گول کیا وہیں امریکا کا رہا سہا کنٹرول بھی جاتا رہا۔23 اکتوبر کو ہونے والے الیکشن نے تیونس سے مغرب نوازوں کی رخصتی پر مہر ثبت کر دی۔
”النہضہ الاسلامی“ نے انتخابات میں کامیابی کیا حاصل کی، جھٹ سے سو، سوا سو خواتین کا مظاہرہ کرا دیا گیا۔ مسئلہ ایک ہی تھا کہ کہیں ان کی آزادی سلب نہ کرلی جائے۔ ان خواتین کو مقامی سے زیادہ عالمی میڈیا نے کوریج دی جو اس بات کا مظہر تھا کہ ” آخر مسئلہ کیا ہے“۔ کہیں ایساتونہیں کہ مغرب جمہوری طریقے سے سامنے آنے والی قیادت کے ہاتھوں تیونس میں تشکیل نو کے مرحلے سے گزرنے والے آئین میں اسلامی رنگ نمایاں ہونے کے خدشے سے دوچارہوچکاہے۔اسے لگنے لگاہےکہ تیونس سے شروع ہونے والی ”بہار عرب“ امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے خزاں نہ بن جائے۔

اب آتے ہیں بہار عرب کی دوسری قسط”لیبیا“ کی طرف۔۔۔ ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی کی کیا بات کر ڈالی کہ کولمبیا یونیورسٹی اور دیگر مقامات پر امریکیوں کو جمہوریت کا لیکچر دینے والا معمر قذافی انسانی حقوق کا سب سے بڑا دشمن بن گیا۔ اسی لئے اس کا خاتمہ اولین ترجیح ٹھہرا۔ لیبیا کی فضائیہ نے بغاوت کچلنے کے لیے  ایسی تباہی نہیں پھیلائی تھی جو قذافی کو ہٹانے کے نام پر نیٹو کے طیاروں نے وہاں کی۔ بالآخر لیبیا کے مرد آہن کا بیالیس سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوا اور قذافی مشتعل نوجوانوں کے ہاتھوں مارا بھی گیا۔ لیکن مغرب کی خوشیاں بس تین روز بعد 23 اکتوبر کو ہی کافور ہوگئیں جب قومی عبوری کونسل کے رہنماؤں نے لیبیا کی آزادی کا باضابطہ اعلان کیا اوراپنے ایجنڈے کے متعلقوضاحت کی کہ وہ آئین میں کیاکرناچاہتے ہیں۔
عبوری کونسل کےرہنما مصطفی عبدالجلیل کے اس بیان پر مغرب کی بھنویں چڑھ گئی ہیں۔ مغربی میڈیا بھی نکتہ چینی کر رہا ہے لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ
”آخر مسئلہ کیا ہے؟“
مصنف  :            سیف اللہ
ادارہ’’سنپ‘‘ مصنف  کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]