میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

معمر قذافی :کل اور آج

سن 2011 کے شروع میں تیونس سے عرب دنیا کی جس سیاسی کایا پلٹ کا آغاز ہوا تھا لیبیا اس فہرست کا تازہ ترین باب ہے جہاں آہنی ہاتھوں سے حکومت کرنے والے عرب آمروں کا انجام نوشتۂ دیوار بنا ہے۔
عرب جمہوریہ لیبیا کے کرنل معمر قذافی طویل ترین عرصے تک برسراقتدار رہنے والے عرب رہنما تھے۔
 ٭           اکتالیس برس پہلے ایک نوجوان کرنل کی حیثیت سے حکومت پر قبضہ کرنے والے معمر قذافی کے بارے میں چند ماہ پہلے شاید ہی کوئی یہ پیش گوئی کر سکتا تھا کہ ان کی حکومت کا کنٹرول اتنی تیزی سے ملک پر سے ختم ہونے لگے گا۔

٭           معمر قذافی انیس سو بیالیس میں سِرت کے نزدیک ایک صحرائی علاقے میں پیدا ہوئے اور اوائل جوانی میں وہ عرب قوم پرستی کے پیروکار اور مصری رہنما جمال عبدالناصر کے شیدائی تھے۔

٭           سن انیس سو چھپن کے نہر سوئز کے بحران کے دوران مغرب اور اسرائیل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھی وہ پیش پیش رہے تھے۔

٭           لیبیا میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کا منصوبہ فوجی تربیت کے دور سے ہی ان کے ذہن میں تھا اور بالآخر سن انیس سو انہتر میں برطانیہ سے تربیت حاصل کرکے لوٹنے کے بعد انہوں نے بن غازی شہر کو مرکز بناکر فوجی بغاوت کردی اور خود لیبیا کے رہنما بن کر ابھرے۔کرنل قذافی ستر کی دہائی میں عرب قوم پرستی کے علمبردار رہے اور انہوں نے لیبیا کو اس وقت کے مصری ، شامی اور اردنی رہنماؤں کے ساتھ کئی معاہدوں میں بھی منسلک کیا۔ ساتھ ساتھ انہوں نے براعظم افریقہ میں بھی اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔

٭           کرنل قذافی ستر کی دہائی میں عرب قوم پرستی کے علمبردار رہے۔
لیکن سن نوے کی دہائی میں عرب دنیا کو اپنی قیادت میں متحد کرنے کی کوشش میں ناکام رہنے کے بعد انہوں نے اپنی ساری توجہ براعظم افریقہ پر مرکوز کردی اور افریقی ملکوں کے لیے ایک ریاست ہائے متحدہ کا خیال بھی پیش کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے افریقی ملکوں کی ثقافت سے ملتے جلتے لباس بھی پہننا شروع کیے۔

٭           کرنل معمر قذافی دنیا بھر میں مختلف عسکریت اور شدت پسند تنظیموں کے بھی پشت پناہ اور مددگار رہے ہیں جن میں تنظیم آزادئ فلسطین یا پی ایل او، آئرش ریپبلکن آرمی اور افریقہ کے کئی شدت پسند گروپ شامل ہیں۔

٭           امریکہ نے سن انیس سو چھیاسی میں یورپ کے بعض شہروں میں بم دھماکوں کے لیے کرنل قذافی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دارالحکومت طرابلس اور بن غازی شہر پر بمباری بھی کی جس میں کرنل قذافی کی لے پالک بیٹی ہلاک ہوگئی تھی۔
٭           سن نوے کی دہائی میں عرب دنیا کو اپنی قیادت میں متحد کرنے کی کوشش میں ناکام رہنے کے بعد انہوں نے اپنی ساری توجہ براعظم افریقہ پر مرکوز کردی اور افریقی ملکوں کے لیے ایک ریاست ہائے متحدہ کا خیال بھی پیش کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے افریقی ملکوں کی ثقافت سے ملتے جلتے لباس بھی پہننا شروع کیے۔

٭           امریکہ اور برطانیہ نے دسمبر سن انیس سو اٹھاسی میں اسکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی کے نزدیک پین امیریکن کے مسافر بردار جہاز کی تباہی کا ذمہ دار معمر قذافی کو قرار دیتے ہوئے لیبیا پر اقوام متحدہ کے ذریعے پابندیاں عائد کرا دیں۔ اس واقعے میں اکیس ملکوں سے تعلق رکھنے والے دو سو ستر لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔

٭           سن دو ہزار تین میں عراق میں صدام حکومت کے سقوط کے بعد کرنل معمر قذافی نے اپنی عالمی تنہائی ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور لاکربی واقعے کا مقدمہ اسکاٹ لینڈ کے قانون کے تحت ہالینڈ میں چلوانے پر رضامندی ظاہر کی۔ برطانیہ کے ساتھ ایک سمجھوتے کے تحت انہوں نے اپنے خفیہ ادارے کے ایک سابق اہلکار عبدالباسط المگراہی کو بھی ہالینڈ کے حوالے کردیا۔

٭           عدالت نے اس مقدمہ میں المگراہی کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید سنائی جبکہ لیبیا نے لاکربی واقعے میں مرنے والوں کے ورثاء کو ہرجانے کے طور پر کئی ارب ڈالر بھی ادا کیے۔ چند ماہ بعد ہی کرنل معمر قذافی نے لیبیا کے جوہری اور کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام کو ختم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد مغرب نے ان کو مکمل طور قبول کرلیا۔

٭           منفرد طریقے اپنانے کے لیے مشہور کرنل قذافی اکثر ٹیلی ویژن پر خیموں میں مقیم دکھائی دیتے جہاں وہ غیرملکی رہنماؤں کا استقبال بھی کرتے جبکہ کہا جاتا ہے کہ ان کے ذاتی محافظوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔

٭           عرب قیادت کے حوالے سے کرنل قذافی کے اکثر دیگر عرب رہنماؤں سے اختلافات بھی رہے ہیں۔ چند برس پہلے قاہرہ میں عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کے دوران تو ان کی سعودی بادشاہ عبداللہ سے سرعام توتومیں میں بھی ہوئی تھی۔

٭           کرنل قذافی کی عمر اڑسٹھ برس تھی اور ان کی جانشینی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے سیف الاسلام قذافی کو تیار کر رہے تھے۔

٭           لیبیا میں ان کے پورے دور اقتدار میں خفیہ اداروں کی بنیاد پر استوار ایک نہایت سخت گیر نظام رہا۔ اسی نظام کے اندر انہوں نے پہلے سوشلزم، سرمایہ داری اور اسلام کے کچھ پہلوؤں کو ملا کر اپنی سبز کتاب پر مبنی سیاسی نظریات پیش کیے۔

٭           پھر انیس سو ستتر میں جماہریہ کے نام سے ایک ایسا نظام بنایا جس میں بظاہر اختیارات عوام پر مشتمل ہزاروں پیپلز کمیٹیوں کے ہاتھ میں تھے لیکن عملاً ماہرین کے مطابق کرنل قذافی ہی تمام اختیارات کا سرچشمہ تھے۔

اپنے پورے دور اقتدار میں انہوں نے اپنے خلاف کسی بھی طرح کے مخالفت کو انتہائی بےدردی سے کچل کر رکھا۔ شائد یہی وجہ تھی کہ ان کے خلاف احتجاج کے دوران بھی کوئی متبادل قیادت سامنے دکھائی نہ دی۔
تیونس سے شروع ہونے والے عرب عوامی بیداری کے اس سیلاب میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کرنل معمر قذافی کے بعد کا لیبیا کیسا ہوگا؟؟؟
فاعتبروا یا اولی الابصار
دیکھو !!! مجھے عبرت بھری نگاہ سے ۔۔۔
  بشکریہ :             بی بی سی اردو سروس
(http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2011/10/111020_gadaffi_profile_ha.shtml)
ادارہ’’سنپ‘‘ بی بی سی  کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]