میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

یہودیوں کا ”جشن چنوکاہ“ !!!

دنیا میں سب سے پہلے وحدانیت کا اعلان کرنے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے انہوں نے بلاحجت اللہ کے ہر حکم پر من و عن عمل کیا، ہجرت کا حکم ملا تو مال و متاع چھوڑ کر نمرود کی سرزمین میں داخل ہوگئے، دربار میں طلبی ہوئی ،جا پہنچے اور نمرود کے جادوگروں سے مقابلہ کیا۔ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آنے والے پیغمبروں کا باپ قرار دیا، سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہو جانے کا حکم دیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دو عدد نرینہ اولادوں سے دنیا اور کائنات میں وحدانیت کا پیغام پنچایا، حضرت اسماعیل کو حکم الہٰی کے مطابق ان کی والدہ ماجدہ حضرت حاجرہ کے ساتھ عبرستان کے صحرا میں چھوڑ دیا، آگے چل کر سرور کونین حضرت محمد ﷺ نے اللہ کے آخری نبی کی حیثیت سے 23 سال کے دورانیہ میں قرآن حکیم کا نزول دیکھا۔ 


 دوسری جانب حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد حضرت موسیٰ، حضرت یعقوب، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت یوسف، حضرت عیسیٰ علیہم السلام نے وحدانیت کے تسلسل کو قائم و دائم رکھتے ہوئے اسلام کو پھیلایا۔ اللہ کے حکم کے مطابق حضرت اسحاق علیہ السلام نے مقررہ علاقہ میں اولین مملکت خداداد” اسرائیل“ کو جہاد کر کے قائم کیا، یروشلم کو دارالخلافہ بنایا جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے شاندار عبادت گاہ تعمیر کروائی جو ہیکل سلیمانی“ کہلائی، یہ مقام یہودیوں کے لئے مقدس ترین ہے، یروشلم کو شامی رومیوں نے فتح کر کے مسمار کر ڈالا تھا، فقط ایک دیوار بچ گئی تھی جو آج تک قائم ہے اسے ”دیوار گریہ“ قرار دیا جاتا ہے یہودی اس دیوار سے لپٹ کر اپنے گناہوں سے بریت مانگتے ہیں۔

 تمام مذاہب میں ایک آسمانی کتاب، مقدس مقام، مقدس پانی، بنیادی اصولوں، اہم تقریبات یا رسومات کا ذکر ملتا ہے، تمام مذہب میں مذہبی امور پر دسترس رکھنے والے استاد بھی مقرر ہوتے ہیں، مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لئے عمارتیں مخصوص ہوتی ہیں۔
 یہودی کیلنڈر کے مہینے” کس لیو“ کی 25 تاریخ کو یہودیوں نے یروشلم کو آزاد کروا لیا تھا یعنی 165 قبل مسیح میں، اس آزادی کی خوشی میں یہودیوں کا آٹھ روزہ جشن شروع ہے جسے عبرانی زبان میں ”چنوکاہ“ کہا جاتا ہے۔ یہ جشن (فیسٹیول آف لائٹ) نومبر کے آخر یا دسمبر کے آخر میں شروع ہوتا ہے، جشن کا آغاز ہفتہ کی شب مخصوص قسم کے موم بتی اسٹینڈ پر ایک موم بتی روشن کر کے کیا جاتا ہے پھر آٹھ روز میں آٹھوں موم بتیاں جلائی جاتی ہیں موم بتیاں جلانے کا مخصوص طریقہ ہے، موم بتی اسٹینڈ بھی مخصوص بناوٹ کا ہے ۔ان دنوں میں یہودی کثرت سے عبادت کرتے ہیں توریت کی تلاوت کرتے ہیں مخصوص حمد و ثنا کرتے ہیں موم بتی اسٹینڈ کو نمایاں کھڑکی پر رکھ دیا جاتا ہے یہ ایک طرح کا چراغاں ہوتا ہے۔ یہودیوں کی عبادت گاہ کو” سنی گونگ“ کہا جاتا ہے عبادت کے وقت شانوں پر مخصوص قسم کا کپڑا ڈالا جاتا ہے، مرد سر پر مخصوص ٹوپی پہنتے ہیں توریت زور زور سے تلاوت کی جاتی ہے، عبادت گاہ میں یہودی پاک صاف ہو کر نہا  دھو کر صاف لباس پہن کر داخل ہوتے ہیں، عبادت کے بعد دوپہر کا کھانا سنی گونگ میں ہی مل بیٹھ کر کھایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاقات بڑھتی ہے۔یہودیوں کا مقدس دن ”سبت “کہلاتا ہے اسی دن صبح سے ہی یہودی ”سنی گونگ“ میں جمع ہو جاتے ہیں۔
  یہودی مل جل کر رہنے کے قائل ہیں، طرز رہائش سادہ اور خوراک کے مقابلے میں ذبیحہ کا ہونا لازمی ہے، دودھ دہی کے معاملے میں مذہبی قیود ہیں، ذبیحہ کو یہودی ”کوشر“ کہتے ہیں ایک دوسرے سے ملتے وقت ”شلام“ کہتے ہیں۔ عبادت کے وقت اللہ کے حضور سنی گونگ میں آہ و گریہ جاری رہتا ہے، لوگوں پر رقت طاری رہتی ہے، سنی گونگ میں بچوں سمیت خاندان کا ہر فرد حاضر ہوتا ہے، سنی گونگ کی باقاعدہ ممبرشپ ہوتی ہے تاکہ ایک دوسرے کے بارے میں جملہ معلومات حاصل رہیں۔
یہودیوں کے ”چنوکاہ“، ہندوؤں کی ”دیوالی“ اور مسلمانوں کی ”شب برات“ کو فیسٹیول آف لائٹ میں ہی شمار کیا جاتا ہے۔
 مصنف :  طارق خان۔(کینیڈا)
ادارہ ”سنپ“موصوف کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]