میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

عشقِ ممنوع !!!

 عشق ممنوع“ کی ترکیب میری سمجھ میں نہیں آئی۔ عشق تو کبھی ممنوع نہیں ہوتا۔ عشق سے منع کرنے والے تھک گئے مگر یہ جذبہ زندہ ہے۔ میں اس حوالے سے پابندیوں کا قائل نہیں۔ عشق تو زندگی میں گھلا ملا ہے۔ دنیا میں معرکہ آرائیوں اور کامیابیوں کی جو کہانی ہے۔ وہ عشق کے جذبے کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔ مقصد اور مشن کی تکمیل کے لئے عشق لازمی ہے۔ عشق ایک انسان کو دوسرے انسان بلکہ انسانوں سے ہوتا ہے۔ عشق مرد کا عورت سے اور عورت کا مرد سے بھی ٹھیک ہے۔ مگر عشق کے معاملے میں وقار اور اعتبار نہ ہو تو وہ کچھ اور چیز ہوتی ہے۔


ہماری فلمیں اور ڈرامے صرف اسی کے گرد گھومتے ہیں اور جھومتے ہیں۔ یہ بات بھی زندگی کا حصہ ہے مگر میرے سامنے تو اچھا نہیں۔ ہر بات میں توازن ہی اس کے جمال اور کمال کے لئے ضروری ہے۔ ”عشق ممنوع“ ترکی میں چلے تو ٹھیک ہے۔ وہاں یہ ڈرامہ چلتا رہا ہو گا۔ یورپ اور امریکہ میں جو فلمیں اور ڈرامے چلتے ہیں۔ چلتے رہیں۔ ہمارے روکنے سے تو نہیں رکیں گے۔ ہمارے کہنے سے تو ہمارے معاشرے میں اس طرح کی گندی فلمیں اور ڈرامے ہوتے رہتے ہیں اور ہم صرف احتجاج ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ بھارتی فلموں کی جو پبلسٹی ہمارے میڈیا پر ہوتی ہے۔ گندے مناظر کی تشہیر جس انداز میں ہوتی ہے۔ ہمارا کیا زور ان پر چلتا ہے؟ ہماری وینا ملک جیسی اداکاراؤں کو وہ ان کاموں کے لئے استعمال کر لیتے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان اس پر راضی ہیں اور ہم پاکستان میں گزرنے والی زندگی کی شرمندگی پر راضی ہو گئے ہیں۔ ہمارا میڈیا جو بنتا جا رہا ہے۔ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ ٹیلی وژن تو گھروں کے اندر ہوتا ہے۔ جس ٹی وی چینل پر دیکھو تو ایک ہی صورتحال ہے۔ میں گھر والوں کو تو نہیں روک سکتا کہ وہ یہ چینل دیکھیں اور وہ نہ دیکھیں۔ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ قسط وار ڈرامے پی ٹی وی پر چلتے تھے۔ ہفتے کے بعد دوسری قسط چلتی تھی۔ مگر اب تو روزانہ کی بنیاد پر یہ ڈرامے چلتے ہیں۔

”اُردو وَن“ سب پر بازی لے گیا ہے۔ مختلف ملکوں سے ڈرامے اردو میں ڈب کر کے سارے تہذیبی وقار کو ڈبویا جا رہا ہے۔ ہمارے گھروں میں شادی بیاہ پر عورتیں گاتی ناچتی سب کچھ ہوتا ہے مگر اس طرح تو نہیں ہوتا کہ جو ہماری تہذیب اور ثقافت کو بگاڑ کے رکھ دے۔ ہم یہ کہہ دیں کہ ہم پاکستانی نہیں۔ ہمارا مشرق سے تعلق نہیں۔ ہماری کوئی روایات نہیں ہیں۔ یہ جملہ کسی یورپی اسکالر نے کہا تھا۔ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ہے۔ یہ سب کچھ ہندو ثقافت میں بھی تھا۔ اب اس ثقافت کا بھی بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔ جو کچھ رقص کے حوالے سے ہوتا ہے۔ اُسے ورزش اور باڈی بلڈنگ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ورزش کرتی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر آدمی کا ذہن بکھر نہیں جاتا اور ہم وہ سوچنے نہیں لگتے جو آجکل رقص کے نام پر کارروائی دیکھ کر سوچتے ہیں اور چاہنے لگتے ہیں جو ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اس طرح سوائے وقتی ابال کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور پھر گہری پژمردگی اور مایوسی۔

یہ بھی ہوا ہے ”عشق ممنوع“ میں کہ ایک پھوپھی اور بھتیجا آپس میں عشق و عاشقی میں کھو گئے۔ عشق سے مستی ملتی ہے۔ بدمستی نجانے کس جذبے سے آتی ہے۔ پھوپھی کو جب تک پھُپھی نہ کہیں تو بات نہیں بنتی۔ وہ ماں کی طرح ہوتی ہے۔ باپ کی بہن اگر احترام کے قابل نہیں تو میرے منہ میں خاک پھر ماں کی بہن کی کیا عزت ہو گی۔ ماسی تو ماں کی طرح ہوتی ہے۔ جس پھُپھی کے لچھن ”عشق ممنوع“ میں نظر آ رہے ہیں تو اسے ”پھپھے کُٹنی“ کہنا چاہئے۔ رشتوں کی تذلیل اور توہین اس طرح ہوتی رہی تو گھروں کے اندر جو ہو گا گھروں کے باہر اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہ ہو گا۔ بڑے سے بڑا بدمعاش اور بے حیا اپنی بہن کو معشوقہ نہیں بنا سکتا۔

”عشق ممنوع“ میں گھر کے خواتین و حضرات کا جس سے چاہتا ہے۔ اس سے آنکھ مٹکا شروع کر دیتا ہے اور پھر آنکھوں میں حیا نہیں رہتی اور مٹکا ٹوٹ جاتا ہے اس میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے سب کچھ گند و گند ہو جاتا ہے۔ یہ آلودگی سب کو لت پت کر دیتی ہے۔ ہمارے میڈیا پر ہمارے ڈرامے کیوں نہیں دکھائے جاتے۔ یہ ڈرامے بار بار دیکھ کر بھی جی نہیں بھرتا۔ پی ٹی وی پر مستنصر حسین تارڑ، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید ،حسینہ معین ،فاطمہ ثریا بجیا نے ڈرامے کو اپنے کمال کی انتہاؤں پر پہنچا دیا۔ یہ ڈرامے لگتے تھے اور ایسے لگتا تھا کہ شہر میں کرفیو لگ گیا ہو۔ پرانے ڈرامے نہ سہی۔ ایسے لوگوں سے نئے ڈرامے لکھوائے جاسکتے ہیں۔

 اب تو ”اُردو وَن“ کے علاوہ ہر ٹی وی چینل باہر سے ایسے ڈرامے منگوا رہا ہے۔ یہ ڈرامے ایک مقصد کے تحت دئیے جاتے ہیں۔ انہیں چلانے کے لئے پیسے بھی دیتے ہیں۔ اب تو بہت پیسہ چل رہا ہے۔ مستنصر تارڑ سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ پیسے کی دوڑ میں کچھ خیال نہیں رہتا۔ ہمارے میڈیا کے لئے امریکہ اور بھارت سے جتنا پیسہ آیا ہے تو ہم خیر کی توقع تو نہیں رکھ سکتے۔ ہم یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ باہر کے ملکوں سے خریدے ہوئے یا بھجوائے گئے پروگرام اور ڈرامے ہماری نمائندگی کریں گے۔ ہمارے فائدے کے لئے ہونگے۔ ہمارے کئی اینکر مین امریکہ اور بھارت میں جا کے پاکستانی پروگرام کرتے ہیں تو کیا وہ پاکستانی پروگرام ہونگے۔ یہ ”ان کے پاکستان“ کے پروگرام ہونگے۔

”اُردو وَن“ کے نام سے ٹی وی چینل کے بارے سوچا تھا کہ یہ کوئی قومی چینل بنے گا۔ اردو زبان کی ترویج اور فروغ کے لئے پروگرام پیش کئے جائیں گے مگر جو پیسے دیتا ہے وہ اپنے پروگرام چلوائے گا۔ ہمارے پروگرام کیوں چلوائے گا۔ ہندی فیچر فلم کے نام سے اردو زبان میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے۔ وہ کسی مغربی معاشرے کا ترجمان تو ہو سکتا ہے۔ بھارت کی نمائندگی یا ترجمانی اس کے ذریعے نہیں ہو سکتی۔ مجھے ہندو ثقافت کے پامال ہونے کا بھی بہت افسوس ہے۔ مگر جو کچھ پاکستان میں دکھایا جا رہا ہے۔ وہ پاکستان سے دشمنی ہے دوستی نہیں ہے۔ جو لوگ پاکستان میں بھارت دوستی کے دھوکے میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ تو دیکھیں کہ بھارت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ کیا کئے جا رہے ہیں۔ احتجاج اب شروع ہوا ہے جب یہ ڈرامہ خود اختتام پر ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ زرداری حکومت کو ختم کرنے کے لئے قانونی اور سیاسی راستے اب تلاش کئے جا رہے ہیں جب وہ خود خاتمے کے قرب ہے مگر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ پھر آ رہے ہیں ابھی گئے تو نہیں مگر پھر آ رہے ہیں۔

”عشق ممنوع“ ختم ہو گا تو عشق کے نام پر کوئی اور داغدار ڈرامہ شروع ہو جائے گا۔ جیسے نئی پاکستانی حکومت پچھلی حکومت سے بُری ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے ڈراموں کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک ڈرامے میں دو مرد نیم برہنہ لیٹے ہوئے ہیں اور سرگوشیوں میں باتیں کر رہے ہیں۔ یہ سرگوشیاں نہیں شر گوشیاں ہیں۔ تو کیا یہ مردوں کو مردوں کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت دینے کی ابتدا ہے۔ 

ارباب ِ اقتدار ، اہل عقل و خرد اور دردمند پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ اسلامی نہ سہی مشرقی روایات کا حامل معاشرہ کو ہی پروان چڑھائیں، وقت رہتے خود بھی ہوش کے ناخن لیں اور معاشرے کو بھی بیدار کریں ، سنسر بورڈ بیرونی غلاظت کو فوری طور پر پابندی لگائے اور مستقل طور پر ایسے حیاء سوز ڈرامے اور فلموں کا راستہ روکے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے۔ (سنپ)
 مصنف:  ڈاکٹر محمد اجمل نیازی۔
(بشکریہ  :روزنامہ  نوائے وقت لاہور)
ادارہ ”سنپ“موصوف کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]