میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

سقوط ڈھاکا!! قومی تاریخ کا سیاہ باب

قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین کو جو قائد کے ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اور جن کا تعلق اُس وقت کے مشرقی پاکستان سے تھا، ملک کا گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔ لیکن لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ان کو ملک کا وزیراعظم اور غلام محمد کو جن کا تعلق سول بیوروکریسی سے تھا، گورنر جنرل مقرر کردیا گیا۔
اُس وقت تک ملک کا انتظام گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت چل رہا تھا جس کو ملکی دستور کی حیثیت حاصل تھی، کیونکہ 1947ء میں قائم کی گئی دستور ساز اسمبلی اُس وقت تک ملک کے لیے ایک نیا دستور بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی تھی۔ غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپریل1953ء میں خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم کے عہدے سے اس وقت برطرف کردیا جب انہیں اسمبلی میں ممبران کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، اور ان کی جگہ ایک بیوروکریٹ محمد علی بوگرہ کو بحیثیت وزیراعظم نامزد کردیا۔



 اس طرح ملک میں پہلی بار دستور سے انحراف کی راہ ہموار ہوئی، کیونکہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت گورنر جنرل وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند تھا، وہ اس کو برطرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔ اس سانحہ نے قومی سیاست میں دستور سے انحراف کے ساتھ، نفاق کا بیج بھی بودیا جو آخرکار مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنا۔

خواجہ ناظم الدین کی غیر آئینی برطرفی کے خلاف قومی سطح پر کسی خاص ردعمل کا مظاہرہ نہ ہونے کے باعث غلام محمد کے حوصلے بلند ہوگئے اور اس واقعہ کے چند ماہ بعد ہی دستور ساز اسمبلی کو جس کی سربراہی ایک اور مشرقی پاکستانی مولوی تمیزالدین خان کررہے تھے،24 اکتوبر 1954ء کو برطرف کردیا جس کی وجہ سے ملک میں ایک بڑے دستوری بحران نے جنم لیا۔ حکومتی سطح پرگورنر جنرل کے اس اقدام کے خلاف عدالتی چارہ جوئی سے باز رکھنے کے لیے کیے گئے اقدام کے باوجود مولوی تمیزالدین خان نے گورنر جنرل کے اقدام کو ایک رٹ پٹیشن کے ذریعے سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کردیا۔ سندھ چیف کورٹ نے اپنے ایک تاریخ ساز فیصلے میں گورنر جنرل کے اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔ مگر سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو اُس وقت کی فیڈرل کورٹ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس محمد منیر کررہے تھے، اس بنا پر کالعدم کردیا کہ جس قانون کے تحت سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے خلاف رٹ جاری کی تھی اس قانون کی منظوری گورنر جنرل سے حاصل نہیں کی گئی تھی۔

فیڈرل کورٹ کے فیصلے نے ایک اور نئے دستوری بحران کو جنم دیا، کیونکہ پاکستان بننے کے بعد اور تمیزالدین کیس کے فیصلے کی تاریخ کے مابین ملک میں اسمبلی کے ذریعے جتنی بھی قانون سازی ہوئی تھی اس کی منظوری گورنر جنرل سے حاصل نہیں کی گئی تھی۔ اس طرح یہ تمام قوانین مولوی تمیزالدین کیس کے فیصلے کی رو سے نافذ العمل نہیں رہے۔ اس مشکل صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے گورنر جنرل نے ایک نئے قانون کا اجراء کیا جس کی رو سے ایسے تمام قوانین جن کی منظوری گورنر جنرل سے حاصل نہیں کی گئی تھی ان کو گورنر جنرل کی منظوری کا حامل قرار دے دیا گیا، مگر فیڈرل کورٹ نے یوسف پٹیل کیس میں اپنے فیصلے کے ذریعے اس قانون کو یہ کہہ کر کالعدم قرار دے دیا کہ گورنر جنرل کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت اس قسم کی قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس مشکل صورت حال سے نکلنے کے لیے گورنر جنرل نے فیڈرل کورٹ سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ایک ریفرنس دائر کیا جس میں فیڈرل کورٹ نے پہلی بار نظریۂ ضرورت (Necessity State)کا سہارا لے کر یہ فیصلہ دیا کہ ایسے تمام قوانین جن کی منظوری گورنر جنرل سے حاصل نہیں کی گئی تھی اُس وقت تک نافذ العمل رہیں گے جب تک ملک میں ایک نئی دستور ساز اسمبلی کا قیام عمل میں نہیں آجاتا اور اسمبلی ان قوانین کا جائزہ لے کر انہیں منظور یا رد نہیں کردیتی۔ ساتھ ہی فیڈرل کورٹ نے فوری طور پر نئی دستور ساز اسمبلی کے قیام کی سفارش بھی کی۔ فیڈرل کورٹ کے حکم کے نتیجے میں بننے والی نئی دستور ساز اسمبلی نے 1956ء کا متفقہ دستور قوم کے سامنے پیش کیا جسے 23 مارچ 1956ء کو ملک میں نافذ کردیا گیا۔

یہاں ہمیں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ 1956ء کا دستور مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان مساوی حقوق (Parity)کی بنیاد پر بنا تھا، جبکہ اُس وقت مشرقی پاکستان کو آبادی کے لحاظ سے مغربی پاکستان پر سبقت حاصل تھی۔ دراصل پیریٹی کے اصول کو تسلیم کرکے مشرقی پاکستان نے ملک میں ہم آہنگی اور سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لیے ایک طرح سے قربانی دی تھی، مگر بدقسمتی سے 1956ء کا متفقہ دستور نافذ ہوجانے کے باوجود ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہ ہوسکا اور دوسال کے قلیل عرصہ میں کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں۔ اس غیر مستحکم سیاسی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس وقت کے صدر نے 7 اکتوبر 1958ء کو 1956ء کے دستور کو ختم کرکے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کردیا اور ملکی انتظام فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کے حوالے کردیا۔ اس طرح ملک میں ایک غیر آئینی حکومت کا قیام عمل میں آیا جسے سپریم کورٹ نے ڈوسوکیس میں ایک کامیاب فوجی انقلاب کا نام دے کر جائز قرار دے دیا، اور اس طرح ملک میں فوجی انقلاب کے ذریعے منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے اور فوجی حکومتوں کے قیام کی قانونی راہ ہموار ہوگئی۔ تمیزالدین خان اور ڈوسوکیس کے فیصلے عوام اور قانون دانوں کی انجمنوں میں پذیرائی حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے اور عرصہ دراز تک سخت تنقید کا نشانہ بنے رہے۔ بالآخر سپریم کورٹ نے 1972ء میں اسماء جیلانی کیس میں ان دونوں فیصلوں کو غلط قرار دے دیا۔

1956ء کا متفقہ دستور پارلیمانی جمہوریت کی اساس پر بنا تھا۔1958ء کے فوجی انقلاب نے اس دستورکو ختم کرکے ملک میں فردِ واحد کا بنایا ہوا صدارتی نظام پر مبنی 1962ء کا دستور رائج کردیا جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان پیریٹی کے اصول کو قائم رکھا گیا۔ 1962ء کا صدارتی طرز کا دستور فیلڈ مارشل ایوب خان کے 1969ء میں رخصت ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا اور آنے والے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے اس کی جگہ (LFO )Legal Framework Order نافذ کرکے ملکی انتظام سنبھال لیا اور مغربی پاکستان میں قائم ون یونٹ ختم کرکے روایتی صوبوں پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کو بحال کرکے ملک میں 1970ء میں پہلی بار بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کا اعلان کردیا۔

1970ء میں ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ انتخابات صاف اور شفاف طریقے سے منعقد کیے گئے تھے، مگر اُس وقت کے فوجی حکمرانوں نے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلیوں کواقتدار منتقل کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا غیر منطقی فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑ ااورملک کے مشرقی بازو میں بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئی جمہوری حکومت وجود میں آئی اور وہاں موجود پاکستان کے 90 ہزار فوجیوں کو ہندوستان کی جارح افواج کے سامنے ذلت کے ساتھ ہتھیار ڈالنے پڑے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جن عوامل نے اہم کردار ادا کیا ان میں چھوٹے صوبوں میں شدید احساسِ محرومی ، مغربی پاکستان کے اکثر یتی صوبے کے لوگوں کا مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ ناروا سلوک، ملک میں جمہوری اداروں کا فقدان ، اور ملک کے سیاسی نظام میں بار بار کی فوجی مداخلت جس نے وفاق کی سطح پر مشرقی پاکستانیوں میں مساوی حقوق کی پامالی کے احساس کو شدید تر بنادیا تھا۔

 یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان ایک وفاق کی صورت میں جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا۔ اس لیے اس کی بقاء بھی جمہوری روایت پر کاربند ہو کر ہی ممکن ہے۔ وفاق کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وفاق میں شامل تمام اکائیوں میں یہ احساس ہمیشہ زندہ رہے کہ وفاق کے انتظامی معاملات میں وہ برابر کے شریک ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں وہاں کے عوام میں ان احساسات کی عدم موجودگی نے بڑا کردار ادا کیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے ہمارے حکمرانوں نے کوئی سبق نہیں لیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہم نے مغربی پاکستان کے باقی چار صوبوں کو پاکستان کا نام تو دے دیا اور اس کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے ایک متفقہ دستور بھی بنا لیا، مگر اس دستور پر عمل پیرا ہونے  میں ہم بری طرح ناکام رہے ہیں۔

 ملک میں فروری 2008ء کے انتخاب کے نتیجے میں ایک جمہوری حکومت تو قائم ہوگئی، مگر ماضی کی طرح آج بھی جمہوری ادارے اپنا روایتی کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ، وفاق اور صوبوں کے درمیان اختلافات اپنے عروج پر ہیں اور ایک صوبے میں حکومتی حلقوں کے مطابق علیحدگی پسند متحرک ہوگئے ہیں۔ حکومت سیاسی اور اختلافی معاملات کو گفت و شنید کے بجائے طاقت کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دے رہی ہے جس کے نتائج ملک کی بقا کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

 محصورینِ مشرقی پاکستان جن مسائل سے آج تک دوچار ہیں اس کی ذمہ داری ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جن کی بے حسی، اصول سے عاری سیاست اور پاکستانی باشندوں کے حقوق کے بارے میں غیر منصفانہ مؤقف نے اس انسانی مسئلے کے حل کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں پیدا کردی ہیں۔ اگر ہم نے ملکی معاملات کو سدھارنے کے لیے فوری اقدام نہیں کیے تو وقت ہمارا انتظار نہیں کرے گا اور شاید تاریخ بھی ہمیں معاف نہ کرے۔ تاریخ اپنے اندر بے شمار سبق رکھتی ہے مگر اُن کے لیے جو اس کا مطالعہ کرتے اور اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب قومیں اور ممالک تاریخ سے سبق حاصل کرنا بھول جاتے ہیں تو بسا اوقات ان کے جغرافیہ بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کیا ہم ایک بار پھر پرانی تاریخ دوہرانا چاہتے ہیں ؟
 خدا کرے ایسا نہ ہو۔
پاکستان پائندہ باد۔

مصنف :  سعید الزماں صدیقی۔کراچی
          (سابق چیف جسٹس پاکستان)    
          (بشکریہ: روزنامہ جسارت کراچی)
ماخذ:   http://beta.jasarat.com/columns/news/26227 
       
ادارہ ”سنپ“موصوف کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]