میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

اسٹیبلشمنٹ:فرنگی ورثہ!

ہمارے سرکاری نصابِ تعلیم نے، سرکاری میڈیا نےاور اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ عوام کو یہی تاثر دیا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک اور آج بلوچستان، قبائلی علاقہ جات، سوات، اندرونِ سندھ وغیرہ میں حکومت ، فوج اور ریاستی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والی تحریکات ، دراصل متعصب قوم پرست تحریکات ہیں، جو قومی یا لسانی تعصب پر کھڑی ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔
اگرچہ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بعض اوقات مستقل ظلم تلے دبے رہ کر ایسی تحریکات جنم لے لیتی ہیں جو اپنے نظریات میں عدل کا دامن چھوڑ بیٹھتی ہیں، نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش اور بلوچستان جیسے سلگتے مسائل میں بیرونی طاقتیں بھی اپنے مخصوص عزائم رکھتی ہیں اور اندرونی انتشار سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں ………
لیکن سوال یہ ہے کہ اس اندرونی انتشار کو پیدا کرنے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ کس نے ایسی فضا پیدا کی کہ امریکہ یا بھارت کو کوئی فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے؟باہر والوں پر انگلی اٹھانے سے قبل ہمیں اپنے اندر کس کا گربیان پکڑنے کی ضرورت ہے؟

 ذرا بریگیڈیئر صدیق سالک کے بیان کیے گئے اس واقعے پر غور فرمائیے:
’’۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ایک فوجی جیپ میرے قریب آکر رکی۔ حوالدار نے مجھے سلیوٹ کیا اور پاس سے گزرتے ہوئے ایک بنگالی لڑکے کو بھبک دار لہجے میں حکم دیا: ’’صاب کا اٹیچی کیس جیپ میں رکھو۔‘‘ سہمے ہوئے لڑکے کو یہ بھبک ناگوار تو گزری، مگر اپنے آقا پر ایک احتجاجی نگاہ ڈالتے ہوئے حکم بجا لایا۔ اس نے گھور کر میری طرف بھی دیکھا۔ اس کے سیاہ چہرے کے چوکھٹے میں سفید سفید آنکھیں وحشت کا احساس لیے ہوئے تھیں۔ میں نے اپنا ہاتھ کوٹ کی جیب میں ڈالا اور چند سکے اس غریب لڑکے کو دینا چاہے، مگر حوالدار نے پرزور لہجے میں کہا: ’’سر! ان حرام زادوں کی عادت نہ بگاڑیے۔‘‘ میں نے مشورہ مان لیا اور بنگالی لڑکا ایک بار پھر نفرت بھری نگاہیں مجھ پر ڈالتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ ایئرپورٹ کی بلند و بالا عمارت پر پرچمِ ستارہ و ہلال پوری آب و تاب سے لہرا رہا تھا۔ میں چھاؤنی روانہ ہو گیا۔۔۔‘‘ (از۔ میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا)

کیا ہم شدید دجل و فریب کا شکار نہیں؟ ہمارے سامنے ایک منظم پراپیگنڈہ مہم کے ذریعے ایک ہی ملک کے بعض لوگوں کو دوسروں سے ذرا کم پاکستانی اور دوسرے درجے کا شہری بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ہم جب پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اس سے شعوراً یا لاشعوراًہماری مراد پورا ملک نہیں ، بلکہ اس کے کچھ مخصوص علاقے ہوتے ہیں۔تبھی قبائل کے عوام دس سال تک ہر دوسرے روز اپنی لاشیں اٹھاتے رہیں ، بلوچ عوام کو مسخ شدہ لاشوں کےتحفے ملتے رہیں، سوات، قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں اندھا دھند فوجی قوت استعمال ہوتی رہے، تو ملک کی سلامتی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اور اس پر اٹھنے والی صدائے احتجاج بھی بہت کمزور سی ہوتی ہے۔ سوچیئے کہ اگر یہی سب کچھ لاہور، گوجرانولہ،پنڈی، پشاور، مردان،کراچی یا حیدر آباد میں ہو رہا ہوتا اور دس سال سے ڈرون طیارے اور جیٹ جہاز ، ٹینک و ہیلی کاپٹر بمباریاں کر رہے ہوتے تو ہمارا کیا ردِ عمل ہوتا؟

سن ۷۱ء میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والی اسی پراپیگنڈہ مہم نے تحریکِ پاکستان میں سرگرم ترین کردار ادا کرنے والے مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کی حب الوطنی کو مشکوک بنایاتھا اور آج قبائل وبلوچستان کے عوام پر یہی الزام لگایا جا رہا ہے۔ وہ قبائلی عوام جنہوں نے ۱۹۴۸ء میں، جب پاکستانی فوج نے کشمیر میں مداخلت سے باز رہنے کا فیصلہ کیا، خود آگے بڑھ کر کشمیر کا ایک بڑا حصہ آزاد کروایا تھا، ان کی اس دین سے محبت، اس سرزمین سے وابستگی اور اس کے عوام سے وفاداری پر سوال اٹھانا سراسر ظلم ہے۔وہ بلوچی عوام جنہوں نے تحریکِ پاکستان کا ساتھ دیا اور یہ وعدہ کیا کہ جب کبھی اس ملک کو خطرہ محسوس ہوا تو وہ اپنی ڈھاڈری بندوقیں لیے اس کے دفاع کے لیے آن پہنچیں گے، ان کو ملک دشمن کہنا اور ان پر یہ تہمت لگانا کہ وہ بطور ایک قوم ہی متعصب قوم پرست اور لسانیت پرست ذہنیت رکھتے ہیں………یہ سراسر زیادتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک خواب تھا جو پورا نہ ہو سکا۔ وہ پاکستان جہاں سب مسلمان، خواہ وہ کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتے ہوں محفوظ ہوں، آزاد ہوں، ایک ہی نگاہ سے دیکھے جائیں، ایک سے حقوق دیئے جائیں……… وہ پاکستان کبھی وجود میں آیا ہی نہیں۔ آئیے اس بات کو وضاحت سے سمجھنے کے لیے ماضی اور حال کے ایک سرسری موازنے کی مدد لیتے ہیں۔

پہلے ذرا ماضی میں جھانک لیجئے۔ سرکاری میڈیا اورا سکولوں کے نصاب کے اس دعوے کا جائزہ لے لیجئے کہ ’’متعصب بنگالی قوم پرستوں نے بھارت کے ہاتھوں میں کھیل کر ملک توڑ ڈالا‘‘۔ دراصل معاملے کے دوسرے اور اصل پہلو پر کوئی نہیں بات کرتاکہ بنگالی مسلمانوں کے دل میں پاکستانی نظامِ حکومت اور فوج کے لیے اتنی نفرت آخر کیونکر بھر گئی تھی؟ پاکستان بنانے کی تحریک میں تو بنگالی مسلمان باقی چاروں صوبوں کے مسلمانوں سے کہیں زیادہ پیش پیش تھے۔ یہ بنگالی ہی تھے جنہوں نے ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کو قراردادِ پاکستان پیش کی تھی۔اِنہی بنگالیوں کے اصرار پر برصغیر میں دو علیحدہ مسلمان ملکوں کی بجائے ایک ہی ملک بنا جس کے مشرقی و مغربی،دو بازو تھے۔ آخر پھر ایسا کیا ہوا کہ بنگالیوں کے لیے ہمارے ساتھ دو قدم چلنا بھی دشوار ہو گیا؟اس کا جواب دینے کے لیے تو ایک نہایت المناک داستانِ ظلم سے پردہ اٹھانا پڑے گا، لیکن یہاں بات کو صرف ایک خاص پہلو پر مرتکز رکھتے ہیں۔ معاملہ یہ تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ (یعنی فوج، بیوروکریسی اور سیاسی خاندان) انگریز کا ورثہ تھی۔ انگریز جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء میں بنگالی قوم کا جذبۂ ایمانی اور شجاعت دیکھ چکا تھا اس لیے وہ اِنہیں تحقیر کی نگاہ سے دیکھتا تھا، ذلیل کر کے، دبا کر رکھتا تھا۔ بالکل اسی طرح انگریز کے بعد،انگریز کے دم چھلوں نے بھی اس مظلوم قوم کو اسی نگاہ سے دیکھا۔

مغربی پاکستان میں یہ بات مشہور تھی کہ بنگالی کالے رنگ اور چھوٹے قد کے کم عقل، کُوڑ مغز لوگ ہوتے ہیں جنہیں نہ تو لڑائی کرنا آتی ہے، نہ ہی وہ کسی اعلیٰ منصب کے لائق ہیں۔ اسی جاہلانہ نظریے کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۷۱ء تک پاکستانی فوج کے ۲۳ جرنیلوں میں سے کسی ایک کا بھی ملک کے سب سے بڑی آبادی والے صوبے بنگال سے تعلق نہیں تھا، ۳۵ بریگیڈیئروں میں سے صرف ایک بنگالی تھا،۵۰ کرنلوں میں سے بھی صرف ایک بنگالی تھا، ۶۰۰ میجروں میں سے صرف دس بنگالی تھے، نیوی کے ۶۰۰ افسروں میں سے صرف ۷ بنگالی تھے اور فضائیہ کے ۶۸۰ افسروں میں سے صرف ۴۰ بنگالی تھے۔بیوروکریسی کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔ ۱۹ سیکرٹریوں میں سے ایک بھی بنگالی نہ تھا، ۴۱ جوائنٹ سیکرٹریوں میں سے محض تین بنگالی تھے، ۱۳۳ ڈپٹی سیکرٹریوں میں سے صرف ۱۰ بنگالی تھے اور۵۴۸ انڈر سیکرٹریوں میں سے صرف ۳۸ بنگالی تھے۔اب آپ ہی بتائیے کہ متعصب اورقوم پرست، بنگالی تھے یا ہماری اسٹبلشمنٹ میں بیٹھے بدبخت؟

یہ کل کی کہانی ہی نہیں۔۔۔ آئیے آج کا منظر نامہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ آج بلوچستان کے ساتھ بھی یہی ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔ بلوچ قوم کے لیے بھی انگریز کی پالیسی یہی رہی تھی کہ اسے دبا کر غلام بنا کر رکھا جائے اور سر اٹھانے کا موقع نہ دیا جائے، کیونکہ انگریز اس قوم کی جنگجوانہ صفات اور ان کے جوشِ ایمانی اور جذبۂ حریت سے بخوبی واقف تھا۔ افسوس کہ نام نہاد آزادی کے بعد بھی ہماری اسٹبلشمنٹ، ہمارے حکمران اس مظلوم قوم کے ساتھ اسی فرنگی ذہن سے تعامل کر رہے ہیں۔ تبھی آ ج تک پاکستانی فوج کے افسر طبقے میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان سے صرف ایک فیصد افسر تعلق رکھتے ہیں، جبکہ سپاہیوں کی سطح پر یہ تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے!

اسی طرح آزاد کشمیر کو افسر طبقے میں صرف ۲ فیصد، اندرونِ سندھ کو ایک فیصد اورشمالی علاقہ جات کو ایک فیصد سے بھی کم نمائندگی حاصل ہے۔ملک کی فوج کے افسروں میں سے ستر فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے،تقریباً بارہ فیصد کا تعلق کراچی وحیدر آباد سے،۸ فیصد کا تعلق سرحد سے اور پانچ فیصد کا تعلق اسلام آباد شہر سے ہے۔بیوروکریسی کا معاملہ بھی کچھ زیادہ فرق نہیں ۔ وہاں بھی پنجاب سے تعلق رکھنے والے افسروں کا تناسب۵۰ فیصد ہے جبکہ باقی سارے علاقے مل کر باقی ۵۰ پچاس فیصد پورا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کس اصول کی بنیاد پر، کس ضابطے کے مطابق پاکستان کی فوج اور پاکستان کی بیوروکریسی میں بھرتیاں کی جاتی ہیں؟ میں خود پنجاب سے تعلق رکھنے کے باوجود یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بلوچ، پشتون اور کوہستانیوں جیسی جنگجو قوموں کو فوج میں اتنی کم نمائندگی آخر کیوں دی جا رہی ہے؟ اگر یہ کوئی راز کی بات نہیں، اور اس سوال کا کوئی معقول جواب موجود ہے تو فوج اور بیوروکریسی، عوام کے اطمینان کے لیے بھرتی کے معیاراتر سے پردہ کیوں نہیں اٹھا تی؟
 حقیقت یہ ہے کہ یہ صوبوں کے باہمی جھگڑے کا مسئلہ نہیں۔ قصور پنجاب یا کراچی کے عوام کا نہیں۔ ان سب کے اوپر فرنگی سانچے میں ڈھلا ہوا، متکبرانہ سوچ کا حامل، متعصبانہ قوم پرستانہ نظریات پر ایمان رکھنے والا ایک ٹولہ مسلط ہے۔ جرنیل، سیاسی خاندان اور بیوروکریٹ ، پہلے بھی اپنے متعصب رویوں سے اس ملک کے دو ٹکڑے کروا چکے ہیں، اور اگر ان جاہلوں کے ہاتھ سے جلد قوت واپس نہ لی گئی تو یہ اب بھی اس ملک کو اسی طرف لے کر بڑھ رہے ہیں…… فرق اتنا ہے کہ خدانخواستہ اگر اس بار کوئی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوا تو شاید دو نہیں، دس بارہ ٹکڑوں پر جاکر بات رکے ۔ اللہ ہمیں اس حریص، دین دشمن، ملک دشمن، متعصب، غدار ٹولے سے نجات دے،اور مملکتِ خداداد پاکستان کی حفاظت کرے۔( آمین)
 مصنف:  قاری محمد عثمان مہر۔
 

 ادارہ ”سنپ“موصوف کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]