میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

پاکستان کا مطلب کیا؟ ذرا سوچیے!

آج کل ایک ٹی وی پر ایک جملہ بار بار سنایا جارہا ہے بالکل اسی طرح جس طرح کسی زمانے میں حدود آرڈیننس کے خلاف سنایا جارہا تھا۔ ’’ذرا سوچیے‘‘ اور اس سے پہلے کچھ اور کہا اور سنایا جاتا تھا اب کہا جاتا ہے اور پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا۔ پاکستانی قوم نے قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد 60 برس تو یہی سبق سنا اور پڑھا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہٰ الا اللہ لیکن اب بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کا مطلب بس صرف پڑھنا لکھنا ہے۔ گویا یہ براہ راست نظریہ پاکستان پر حملہ ہے۔


اس جملے سے قبل مغل بادشاہوں کی پرتعیش زندگی ان کے محلوں، ان کی بنائی ہوئی عمارتوں وغیرہ کا حوالہ دے کر امریکا اور برطانیہ سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ جس وقت مغل بادشاہ ہرن مینار بنا رہے تھے تو فلاں ملک میں اتنی رقم سے یونیورسٹی بن رہی تھی۔ بار بار پاکستان کا موازنہ بھارت سے کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں صرف ڈیڑھ سو یونیورسٹیاں ہیں جب کہ بھارت میں ہزاروں۔ اگر آبادی اور رقبے کو دیکھ لیں تو بھی بھارت میں ہزاروں یونیورسٹیاں ہی ہونی چاہیے تھیں۔ کہاں 18 کروڑ کہاں سوا ارب اتنا فرق ہو گا تو یونیورسٹیاں زیادہ ہی ہوں گی۔ لیکن یہاں کس کے پاس فرصت ہے کہ ذرا سوچیے…

 آپ خود سوچیے کہ اگر یہ موازنہ یوں کیا جائے کہ پاکستان میں 4 کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں تو بھارت میں یہ تعداد 12 کروڑ ہے۔ پاکستان میں 25 لاکھ افراد فٹ پاتھ پر سوتے ہیں تو بھارت میں 2 کروڑ لوگ فٹ پاتھ پر زندگی گزار دیتے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ 100 قتل ہوتے ہیں تو بھارت میں 2000 قتل ہوتے ہیں… ذرا سوچیے

یہ جو کہا جاتا ہے کہ مغلوں نے عیاشی کے سوا اور کچھ نہیں کیا نور جہاں کا مقبرہ بنایا اور بارہ دریاں بنائیں… یہ بات سنانے والا بھول جاتا ہے کہ یہ جو ہمایوں بادشاہ تھا یہ کسی عیاشی کے اڈے سے گر نہیں مرا تھا اس کی لائبریری تھی اور رسد گاہ تھی وہاں وہ میوزیکل فنکشن نہیں کرتا تھا بلکہ فلکیات کا ماہر تھا۔ اس نے ہندوستان میں ایرانی فنکاروں کو متعارف کرایا اور ان کے فن پارے آج بھی مغل فن کے نام سے جاری کیے جاتے ہیں۔ پتا نہیں اس ٹی وی کے محقق یا ریسرچ کرنے والے ریسرچ کر رہے یا کسی کا دیا ہوا اسکرپٹ پڑھ رہے ہیں!

یہ جو جلال الدین محمد اکبر تھا اس سے لاکھ اختلاف کریں لیکن اس نے پورے ہندوستان میں سول اور فوجی نظام رائج کیا جسے منصب داری نظام کہتے ہیں جو آج بھی ہندوستان میں جاری ہے۔ ذرا سوچیے۔ اس اکبر بادشاہ نے ہندوستان میں اوزان پیمائش کا معیار مقرر کیا اور اس نے ہندوستان میں ٹیکس کا نظام وضع کیا ور نافذ کیا۔ اور باقاعدہ پولیس فورس بھی اسی دور میں ہندوستان میں منظم کی گئی… ذرا سوچیے!!!
سازش تو اس کے ساتھ بھی کی گئی۔ اس کی سات میں سے ایک شادی جے پور کی ہندو رانی سے ہوئی تھی جس نے اس کے مذہب کو بھی برباد کیا۔ ذرا سوچیے… انتظام سلطنت کے حوالے سے ایک اور مثال آج کل بڑے بڑے جی ایچ کیو اور مرکزی سیکریٹریٹ بنتے ہیں۔ جانتے ہیں اکبر نے آگرہ  (اکبر آباد)  سیکری آگرہ میں ساڑھے سات مربع کلومیٹر کے رقبے پر دارالحکومت قائم کیا تھا جو ساڑھے چار سو سال بعد بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ ذرا سوچیے!! انگریز کیا کرتا تھا کتنے کالوں کو قتل کیا کتنی جنگیں لڑیں کتنے کروڑ افراد مرے… ذرا سوچیے!!۔

اگر لوگوں کے پاس فرصت اور ہمارے پاس ریسرچ کے ذرائع سفر کے مواقع ہوں تو مزید بہت کچھ بتا سکتے ہیں۔ یہ معلومات تو انٹرنیٹ پر یوں ہی بکھری پڑی ہیں اور ذرا سوچیے، طرز فکر والے اس وقت بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ چنانچہ ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ ابو المظفر محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں ذرا سوچیے طرز فکر کا ایک مختصر پیرایہ… جو ان کی فکر کے نفاذ کا نمونہ ہے
اورنگ زیب عالمگیر روا داری سے عاری ایک شخص تھا اس نے موسیقی پر پابندی لگائی، اس نے مغل فن تعمیر کا خاتمہ کر دیا تھا۔ آرٹ اور کلچر کو روک دیا تھا۔ اس کے دور میں سر عام (مجرموں کو) سزائیں سنائی جاتی تھیں۔ اس کے دور میں سکھ اور ہندو (سازشی) خوفزدہ تھے۔ وغیرہ وغیرہ… اگر اس پیراگراف کو آگے بڑھایا جائے تو یوں لکھا جانا چاہیے کہ:
’’اورنگ زیب عالمگیر بہت خراب آدمی تھا۔ اپنے زمانے کا ہٹلر، صدام حسین، اسامہ بن لادن اور بیت اللہ محسود تھا۔ اس کے خلاف ساری دنیا کو اتحادی بن کر ’’کروسیڈ‘‘ کرنا پڑا جو آج بھی جاری ہے… ذرا سوچیے۔

اور جس چیز پر سب سے زیادہ زور ہے وہ ہے پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا… آئیے پڑھنے لکھنے کی باتیں کریں اسکول کی کم سے کم فیس 250 روپے کاپیاں 25 روپے سے 100 روپے تک کی۔ پینسل 5 روپے کی اور اچھی والی 10 کی، ربر 5 روپے، اچھا والا 15 کا یونیفارم ہزار روپے کا… جوتے 500 کے آنا جانا رکشے ویگن یا وین میں اس کے الگ پیسے۔ یہ تو غریب کی بات ہو رہی ہے۔ بیکن ہاؤس اور سٹی اسکول کی نہیں ۔
تو پھر ذرا سوچیے موبائل کا پیکج سستا۔ 7 روپے یا 5 روپے میں ساری رات بات اتنے میں ایک پنسل آتی ہے۔ 50 روپے کا انٹر نیٹ کے کارڈ 20 گھنٹے کا اتنے میں ایک کاپی آتی ہے… پیکج سستے تعلیم مہنگی۔… اور پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا
اس کے آگے جب تک لاالہ الا اللہ نہیں لگے تب تک یہی ہوتا رہے گا۔

مسلمان بادشاہوں کے کارنامے:
یہ جو ہندوستان میں ہر طرح کے پھل ہوتے ہیں اور پاکستان کے بہت سے علاقوں اور کشمیر میں جو پھول ہیں یہ کہاں سے آئے ۔اس حوالے سے انجینئر اظہار الحق کی ایک تحریر کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں… وہ اپنے کالم دوماہ کراچی میں رقمطراز ہیں:
میں نے ہندوستان کو پھلوں اور پھولوں سے لاد دیا، ڈھاکا سے پشاور تک، آگرہ سے برہان پور تک آگرہ سے جودھپور تک اور لاہور سے ملتان تک شاہراہیں بنوائیں اور زمین کا ایسا بندوبست کیا جو آج تک رائج ہے۔ آگے لکھتے ہیں، ایک وقت میں دہلی میں ایک ہزار کالج تھے۔ آگرہ کے کئی تعلیمی اداروں میں بیرون ملک سے آئے ہوئے اسکالرز پڑھاتے تھے۔ مغلوں کے آخری دور میں نجیب الدولہ کے پاس نو سو علما تھے۔
اظہار الحق کی اس تحریر کے اقتباس کو پڑھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کارنامے جس وقت مسلمان حکمران کر رہے تھے اس وقت یورپ بھکاریوں سے بھرا ہوا تھا، جرائم عام تھے اور یورپ برصغیر کی اسی دولت کو لوٹنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ یہاں آیا تھا… ذرا سوچیے۔
 ============
سوشل میڈیا کے محب دین و ملت ساتھیوں کے
 بے لاگ تصویری تبصرے
 ============




مصنف :  مظفر اعجاز۔(کراچی )
          (بشکریہ: روزنامہ جسارت کراچی)  
  
ادارہ ”سنپ“موصوف کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]

==================================
==================================

موضوع کے لحاظ سے ”فیس بک“میں جناب زاہد علی خان صاحب کا مضمون:
انتہائی شکریہ کے ساتھ عوام الناس کے استفادے کے لیے یہاں بھی شایع کیا جارہا ہے۔

آج کل ایک نجی ٹی وی پر ایک اشتہار آپ اکثر دیکھتے ہیں: ’’ پڑھنے لکھنے کے سوا ، پاکستان کا مطلب کیا ‘‘…
جس کی تفصیل میں بتایا جاتا ہے کہ جب ہمارا ایک بادشاہ اپنی بیوی کی یاد میں تاج محل بنوا رہا تھا اُس وقت امریکا میں فلاں یونیورسٹی بن رہی تھی، اور جس وقت ہمارا ایک بادشاہ اپنے پالتو ہرن کے سوگ میں ہرن مینار بنوا رہا تھا اُس وقت برطانیہ میں فلاں یونیورسٹی بن رہی تھی۔
میری عرض یہ ہے کہ کیا ہم اپنے بچوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ عاقبت نااندیش اور ناسمجھ تھے؟ مجموعی طور پر اسلامی دنیا میں۔ حضرت صدیق اکبرؓ کے دور میں جب اسلامی لشکر کے جرنیل حضرت خالد بن ولیدؓ اور ابوعبیدہ بن الجراحؓ نے ایران اور روم فتح کیا، مساجد تعمیر کرائیں، یونیورسٹی کیوں نہیں؟ حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں جب فلسطین فتح ہوا تو بجائے یونیورسٹیوں کے مسجدِ عمر کیوں بنوائی؟ ولید بن عبدالملک کے دورِ خلافت میں موسیٰ بن نصیر نے افریقہ اور طارق بن زیاد نے ہسپانیہ فتح کیا تو مساجد ہی کیوں بنوائیں، یونیورسٹیاں کیوں نہیں؟ ولید بن عبدالملک کے دورِ خلافت میں ہی جب محمد بن قاسم سندھ آئے تو فتح کے بعد مساجد کے بجائے یونیورسٹیاں کیوں نہیں بنوائیں؟ عباسی دورِ خلافت میں بغداد پوری دنیا کے لیے تعلیمی لحاظ سے مالامال تھا، تو کیا وہاں یونیورسٹیاں تھیں یا مساجد؟ اسلام کے رجلِ عظیم سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگوں میں صلیبیوں کو شکست اور بیت المقدس کو آزاد کرانے کے بعد بھی یونیورسٹیاں کیوں نہیں بنوائیں؟ سلطان رکن الدین بیبرس نے ہلاکو جیسی آفت سے عالم اسلام کی گلوخلاصی کرائی، پَر کوئی یونیورسٹی کیوں نہ بنوائی؟ عثمانی تاجدار سلطان محمد نے قسطنطنیہ فتح کرنے کے بعد نیلی مسجد بنوائی، یونیورسٹی بنانے کا خیال کیوں نہ آیا؟ کیونکہ ان ادوار میں ہر مسجد ایک یونیورسٹی تھی، اسی لیے تو بغداد پوری دنیا کا تعلیمی مرکز تھا۔ اس کے علاوہ البیرونی، ابن الہیثم، بوعلی سینا جیسے عظیم لوگ کس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے؟ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، سلطان ناصر الدین محمود، سلطان شمس الدین التمش، جلال الدین خلجی اور علائوالدین خلجی نے بھی اس طرف کوئی توجہ کیوں نہ دی۔
 میری عرض یہ ہے کہ فتح پور سیکری کی جامع مسجد میں جو یونیورسٹی تھی یورپ میں اس کی کوئی مثال اُس وقت نہیں تھی۔

مجھے یہ پڑھ کر لارڈ میکالے کے وہ جملے یاد آگئے جو اس نے برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہے تھے:
’’میں نے ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کیا، مجھے ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آیا جو فقیر ہو یا چور ہو۔ میں نے اس ملک میں بے حد دولت دیکھی، اعلیٰ اخلاقی قدریں دیکھیں اور اعلیٰ پائے کے عوام دیکھے ہیں۔ میں تصور نہیں کرسکتا کہ ہم کبھی اس ملک کو فتح کرسکتے ہیں جب تک ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی نہ توڑ دیں۔ یہ اس قوم کی روحانی اور ثقافتی میراث ہے۔ اس لیے میرا یہ مشورہ ہے کہ ہم ان کا پرانا تعلیمی نظام یکسر بدل دیں، کیونکہ جب ہندوستانی اس بات کا یقین کرلیں گے کہ بیرونی اور انگلش چیز ان کی اپنی چیزوں سے بہتر ہے تو وہ اپنی خودمختاری اور اعتماد کھو دیں گے۔ پھر وہی بن جائیں گے جیسا کہ ہم چاہتے ہیں… یعنی ایک حقیقی محکوم قوم۔‘‘

مسلمانوں کی تاریخ پڑھتے ہوئے بہت سارے قارئین کو ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف جنگ و جدل اور درباری سازشوں کی تاریخ ہے، لیکن مسلم تاریخ کے کئی ایسے روشن پہلو بھی ہیں جن سے ہمارے مؤرخین نے مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ رہی سہی کسر نوآبادیاتی دور کے بعد پیدا ہونے والی غلامانہ ذہنیت نے پوری کردی، جو کسی بات کو اُس وقت تک مستند تسلیم کرنے سے انکار کرتی رہتی ہے جب تک مغرب کے کسی مصنف کا حوالہ نہ دیا جائے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے تاریخِ انسانیت میں علم و فن، فکر و فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی اور ثقافت کے نئے اسالیب کا آغاز ہوا اور دنیا علمی اور ثقافتی حوالے سے ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والے صحیفہ انقلاب نے انسانیت کو مذہبی حقائق سمجھنے کے لیے تعقل و تدبر اور تفکر کی دعوت دی۔ ’’تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟، ’’وہ غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟‘‘ اور ’’جو لوگ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں‘‘ جیسے الفاظ کے ذریعے اللہ رب العزت نے اپنے کلامِ برحق میں بار بار عقلِ انسانی کو جھنجھوڑا اور انسانی و کائناتی حقائق اور آفاقی نظام کو سمجھنے کی طرف متوجہ کیا۔ اس طرح مذہب اور فلسفہ و سائنس کی غیریت بلکہ تضاد و تصادم کو ختم کرکے انسانی علم و فکر کو وحدت اور ترقی کی راہ پر گامزن کردیا گیا۔
محمد اقبال اپنی کتابThe Reconstruction of Religious Thought in Islam میں لکھتے ہیں:
لہٰذا تجرباتی طریقہ، عقل و استدلال اور مشاہدہ جس کو عربوں نے متعارف کروایا، وہ قرون وسطیٰ میں سائنس کی تیز رفتار ترقی کی وجہ بنا۔ بہت سے اہم ادارے جو قدیم دنیا میں موجود نہ تھے، ان کی بنیاد قرون وسطیٰ کی اسلامی دنیا نے رکھی۔ ان اداروں میں عوامی ہسپتال، امراض نفسیات کے ہسپتال، عوامی کتب خانہ، ڈگری جاری کرنے والی علمی یونیورسٹی اور فلکیاتی مرصد شامل ہیں۔ پہلی یونیورسٹی جس نے ڈپلومے جاری کیے، وہ قرون وسطیٰ کی اسلامی دنیا کی بیمارستان طبی ہسپتال اور یونیورسٹی تھی۔ یہ ڈپلومے نویں صدی میں جاری کیے گئے۔

بہرحال مسلم تاریخ کے روشن ابواب میں سے ایک ابوعلی الحسن بن الہیثم بھی ہے جو اُن سینکڑوں نابغہ روزگار ہستیوں میں سے تھا جنہوں نے ’’دور ظلمت‘‘ میں علم کی شمعیں روشن کیں اور ایسے محیرالعقول کارنامے انجام دیے جن کی وجہ سے ان کا نام آج بھی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھا ہوا ہے۔
سب اتفاق کریں گے کہ آئزک نیوٹن دنیا کے عظیم ترین ماہر طبیعات تھے۔ کم سے کم اسکول میں ہمیں جو پڑھایا جاتا ہے اُس کے مطابق وہ جدید بصری علوم کے بانی ضرور تھے۔ اسکول کی کتابیں عدسوں اور منشور کے ساتھ اُن کے مشہور تجربات، ان کی روشنی اور انعکاس اور انعطاف کے عمل پر تحقیق کی تفصیل سے بھری پڑی ہیں۔
لیکن حقیقت شاید کچھ مختلف ہے۔ میں یہ باور کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ بصری علوم کے میدان میں نیوٹن سے پہلے ایک اور بہت بڑی ہستی سات سو سال پہلے ہو گزری ہے۔ مغرب میں اکثر لوگوں نے ان کا نام کبھی نہیں سنا۔
بلاشبہ ایک اور عظیم ماہر طبیعات جن کا رتبہ نیوٹن کے برابر ہے، 965ء میں اس علاقے میں پیدا ہوئے جو اب عراق کا حصہ ہے۔
 ان کا نام تھا: ’’ابو علی الحسن بن الہیثم‘‘… ابن الہیثم کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی پیدائش عراق کے شہر بصرہ میں غالباً 354 ہجری اور وفات 430 ہجری (پیدائش: 965 ئ، وفات: 1039ئ) کو ہوئی۔

(بشکریہ: صاحب مضمون)