میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

ڈولی کھاتا مندر کا انہدام!


سولجر بازارکے علاقے ” ڈولی کھاتا“ میں مندر کا انہدام۔ہندو برادری کی جانب سے مذمت اور احتجاج۔
 صدرپاکستان نے رپورٹ طلب کرلی۔ 

یکم دسمبر 2012ء، بروز ہفتہ کو ہونے والی اس کارروائی کی خبر جب پاکستانی اخبارات نے اگلے روز شائع کی تو ایک ہنگامہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ ہندوستانی اخبارات نے بھی اس خبر کو مرچ مصالحہ لگاکر بیان کیا۔ نتیجتاً ایک بار پھر یہ کہا جانے لگا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے اور پاکستان ہندوؤں کے لیے غیرمحفوظ ہے۔
 اس خبر کے سامنے آنے پر اخبارات کے قارئین نے بھی افسوس کا اظہار کیا اور اسے شرم ناک عمل قرار دیا۔ لیکن اس تمام تر کہانی کا دوسرا رخ کیا ہے؟

 آئیے، حقائق کا جائزہ لیتے ہیں:-

مقام کا تعین:-
کراچی کے قدیم علاقے سولجر بازار میں  پلاٹ نمبر 38 پر مری ماتا مندر واقع ہے۔ ثبوت کے طور پر تصویر ملاحظہ ہو:


تنازعہ:-
پلاٹ نمبر 39 کی ملکیت ایک بلڈر کے پاس ہے۔ تنازعہ یہاں سے کھڑا ہوتا ہے کہ ہندوؤں نے پلاٹ نمبر 38 کے علاوہ غیر قانونی طور پر قبضہ کرکے پلاٹ نمبر 39 پر بھی تعمیرات قائم کرلیں۔ عدالت میں اس تنازعے کا مقدمہ کئی سال تک چلتا رہا۔ فیصلہ ہندوؤں کے خلاف آنے کے بعد اُنھوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ وہاں سے بھی انہی  کے خلاف فیصلہ آیا۔
نتیجتاً عدالتی احکامات کے مطابق پلاٹ نمبر 39 پر قائم کی گئی ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کردیا گیا نہ کہ مندر کا۔ اس عمل کے نتیجے میں ہندو برادری سراپا احتجاج ہوگئی اور گمراہ کن معلومات فراہم کرکے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ حکومتی دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ مندر کا پلاٹ نمبر کون سا ہے۔
 پلاٹ  نمبر 38 کی کہانی:-
پلاٹ نمبر 39 کی بات ہم بعد میں کرتے ہیں، پہلے ایک دل چسپ حقیقت ملاحظہ ہو کہ درحقیقت جس پلاٹ پر ان کا مندر قائم ہے یعنی پلاٹ نمبر 38، وہ بھی ایک ہندو اشوک کمار ولد کرشن راما کی ملکیت ہے۔ اشوک کئی بار علاقے کے ایس ایچ او سے درخواست کرچکا ہے کہ لچھمن لال اور پانچو شنکر سمیت کئی لوگوں نے اس کے پلاٹ پر غیر قانونی قبضہ کرلیا ہے۔ ثبوت کے طور پر درخواست ملاحظہ کیجیے:
 عدالت کا حکمِ امتناع:-
تجاوزات کے انہدام کے بعد ہندوؤں کی جانب سے شور مچایا گیا کہ مقدمہ زیرِ سماعت تھا اور عدالت نے Stay Order دیا ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پلاٹ نمبر 39 کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے بلڈر نے خود عدالت سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تھا اور کئی نوٹس ارسال کیے جانے کے باوجود مخالف فریق عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔ بالآخر سندھ ہائی کورٹ نے 13 نومبر 2012ء کو مقدمہ خارج کردیا۔ عدالتی حکم نامہ ملاحظہ کریں:

 مندر کتنے سو سال پرانا تھا؟
پہلے کہا گیا کہ مندر 50 سال پرانا تھا، پھر کہا گیا کہ مندر 100 سال پرانا تھا، بعد ازاں اسے مزید بڑھا چڑھا کر 200 سال پرانا قرار دے دیا گیا۔ اتنی تیز رفتاری سے اگر یہ مدت بڑھتی رہی تو ایسا لگتا ہے جیسے بہت جلد اسے قبل از مسیح وقت کا مندر قرار دے دیا جائے گا۔ لیکن مندر کے سنگِ بنیاد کے بارے میں یہ تصویر کچھ الگ ہی کہانی سناتی ہے:
 حقیقت یہ ہے کہ ہندو برادری نے اس معاملے میں انتہائی شرم ناک حد تک دھوکا دہی اور جھوٹ سے کام لیا اور ہمارے میڈیا نے حسبِ عادت اور حسبِ معمول بغیر تحقیق کیے اسی جھوٹ کا پرچار شروع کردیا۔ جس مندر کو قدیم اور سو سال پرانا قرار دیا جارہا ہے، وہ مری ماتا مندر ہے جو پلاٹ نمبر 38 پر قائم ہے۔ جب کہ ہندوؤں نے اپنی ناجائز تجاوزات اور غیر قانونی قبضے کو مذہبی رنگ دینے کے لیے پلاٹ نمبر 39 پر تعمیر کردہ عمارت کو شری راما پیر نول مندر کا نام دے دیا جس کا افتتاح 31 جولائی 2000ء میں ہوا۔ ذرائعِ ابلاغ کی رپورٹنگ سے واضح ہے کہ شری راما مندر کے انہدام کا ذکر ہے اور یہ تصویر واضح کرتی ہے کہ یہ مندر 200 سال تو کیا، 200 مہینے بھی پرانا نہیں ہے۔

کیا ہندوؤں کی مورتیوں کی بے حرمتی کی گئی؟
ہندوؤں نے قانونی پہلوؤں کو اپنے خلاف جاتا دیکھ کر یہ واویلا مچانا شروع کردیا کہ ہماری مقدس اشیا کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ تاہم سامنے آنے والی تصاویر اُن کا یہ الزام غلط ثابت کردیتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر قانونی تجاوزات کو منہدم کرنے سے پہلے تمام مورتیاں وغیرہ عمارت سے باہر نکال کر رکھ دی گئی تھیں۔ اخبارات کی رپورٹنگ اور آن لائن تصاویر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

دھوکا دہی کون کررہا ہے؟
ان تمام حقائق سے قطع نظر، یہ معاملہ پُرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے زمین کے مالک کی جانب سے غیر قانونی تجاوزات قائم کرنے والے 13 افراد کو اپریل 2008ء میں ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کیے گئے تاکہ وہ کسی دوسری جگہ رہائش کا انتظام کرسکیں اور یہ جگہ خالی کردیں۔ رقم کی وصولی کے کاغذات میں اُنھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اُنھوں نے بے جا قبضہ کیا ہوا تھا۔
 ذرائع ابلاغ کا شرم ناک کردار
اس تمام تر صورتِ حال میں پاکستانی ذرائع ابلاغ کا کردار حسبِ معمول انتہائی افسوس ناک اور شرم ناک رہا جس نے حقائق کو مکمل طور پر پرکھے بغیر ایک فریق کا مؤقف سن کر اُن کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹا اور اس حقیقت کو قطعی طور پر نظرانداز کردیا کہ اس طرح کی خبروں کے نتیجے میں عالمی منظرنامے پر پاکستان کا کس قدر منفی چہرہ اُبھرے گا اور ہندوستانی میڈیا اسے کس طرح پیش کرے گا۔ زمین کے اصل مالک کو بلڈر مافیا قرار دیا گیا اور غیر قانونی قبضہ کرنے والوں کو قبضہ مافیا کہنے کے بجائے مظلوم بناکر پیش کیا گیا۔
ابھی تو اس صورتِ حال کی ابتدا ہے۔ آگے آگے دیکھیے، کیا کیا سامنے آتا ہے اور ہمارے ذرائعِ ابلاغ کیا گُل کھلاتے ہیں۔

چلتے چلتے یہ خبر بھی  ملاحظہ ہو:
مدراس ہائی کورٹ (ہندوستان)نے اپریل 2012ء میں فیصلہ دیا کہ تیروونامالائی ہل (Tiruvannamalai Hill) پر قائم کیا جانے والا مندر منہدم کردیا جائے کیوں کہ یہ غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔
عدالت نے اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ مندر کے نام پر ایسی تجاوزات کی اجازت کیوں دی گئی اور واضح کیا کہ مذہب کا نام استعمال کرکے زمین پر قبضے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
 مصنف:  عمار ابن ضیاء۔

ادارہ ”سنپ“موصوف کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]