میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

اسلامی تاریخ کے دو گورنر!


قومیں اپنے افکار کی بنا پر دنیا میں عروج پاتی ہیں۔ تاریخ میں کسی ایسی قوم کا ذکر نہیں جس نے اپنے اسلاف، اقدار یا دیانت کے بغیر مقام پایا ہو۔ آج کے ملکی حالات دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اپنے حالات کو ٹھیک نہ کیا تو خدانخواستہ بقول علامہ اقبال ’’ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘
اور ہمارا حال ویسا ہی ہوگا جس کی طرف سورۂ بنی اسرائیل میں اشارہ کیا گیا ہے:-
وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا     16؀
’’اور جب ارادہ کرتے ہیں کہ ہلاک کردیں کسی بستی کو تو وہاں کے رئوسا و اشرافیہ کو فواحش پر مامور کر دیتے ہیں وہ نافرمانیاں کرتے پھرتے ہیں۔ اس (بستی) میں پس واجب ہو جاتا ہے ان پر عذاب کا حکم پھر ہم اس بستی کو جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
 محترم حقی حق نے اپنی کتاب ’’زوال عصر، کوفہ اور گداگر‘‘ میں بالکل ٹھیک کہا ’’مملکت خداداد کو مملکت بے خداداد میں بدل دینے والے حکمرانوں اور اشرافیہ نے ایک طرف تو حکمرانی کی ایک ایسی طرز خاص ایزاد کی کہ جس میں احتساب نہیں۔ دوسری طرف جرائم پیشہ، خائن اور ناپاک سورۃ الانفعال کے ثبوت میں متحد ہوگئے۔ چور چوروں کے تحفظ پر مامور اور ناپاک دوسرے ناپاک سے متصل ہوجانے میں سرگرم ہوگیا۔ جب چور، ناپاک، بددیانت اور ڈاکو اکٹھے ہوگئے اور حاکم اور اشراف قرار پائے تو غریب مملکت کا خزانہ کیسے بچ سکتا تھا۔ سو نہ خزانہ رہا اور نہ خلقِ خدا محفوظ رہی نہ مملکتِ خداداد رہی نہ مملکت اسلامیہ۔ فرمانِ الٰہی ہے:-
لِيَمِيْزَ اللّٰهُ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيْثَ بَعْضَهٗ عَلٰي بَعْضٍ فَيَرْكُمَهٗ جَمِيْعًا فَيَجْعَلَهٗ فِيْ جَهَنَّمَ      ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ  37؀ۧ
تا کہ اللہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر الگ کرے اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کر اکٹھا کرے پھر اس پلندے کو جہنم میں جھونک دے۔ یہی لوگ اصلی دیوالیے ہیں۔(37)

ہمارے ملک کا آخری معرکہ دھڑوں اور پارٹیوں کے درمیان نہیں بلکہ ایک دوسرے سے متصل ناپاک اور پاک لوگوں کے درمیان ہوگا۔ مملکت خداداد میں اس خط کا کھینچا جانا واجب ہو چکا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ خط خون سے کھینچا جائے گا۔ اس خط امتیاز کے واقع ہونے کی ۱۰۱ وجوہات موجود ہیں۔ اگر کسی چشم خمار آلودہ چشم پوش کو یہ خط کشیدہ نظر نہیں آتا تو ڈاکٹر رشید امجد کا یہ اقتباس (تمنا بے تاب ص ۳۲۶) مکرر پڑھنا چاہیے۔

پنجاب کے ایک گورنر کو جو صاحبان عالی شان تھے۔ بہاولپور کے علاقہ میں مربعے الاٹ ہوئے۔ ایک دن گورنر نے کمشنر بہاولپور سے پوچھا کہ ان مربعوں کی مالیت کیا ہوگی۔ کمشنر نے یوں ہی نمبر بنانے کے لیے کہہ دیا ’’سر تقریباً ایک کروڑ‘‘ گورنر نے کہا ’’تو ایک ہفتہ میں مربعے بیچ کر کروڑ روپے انھیں بھجوا دیے جائیں۔‘‘ کمشنر کو مصیبت پڑ گئی۔ اس نے یونہی نمبر بنانے کے لیے کہہ دیا تھا۔

حقیقت یہ تھی کہ مربعے چند لاکھ سے زیادہ کے نہ تھے۔ انھوں نے اپنے ماتحتوں کو بلایا کہ اب کیا کریں! میٹنگ میں ایک ایس پی بھی تھا۔ اس نے کہا ’’سر آپ اجازت دیں تو میں ایک راستہ بتاتا ہوں۔‘‘ کمشنر نے پوچھا ’’وہ کیا ہے؟‘‘ ایس پی نے کہا ’’مقامی نیشنل بینک کی شاخ میں ۳،۴ کروڑ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ آپ اجازت دیں تو آج رات اس پر ڈاکہ پڑوا دیتے ہیں۔ رات کو بینک پر ڈاکا پڑا اور ۲کروڑ لوٹ لیے گئے۔ ایک کروڑ تو گورنر کو بھیج دیے گئے اور ایک کروڑ متعلقہ انتظامیہ میں بٹ گئے۔ صبح چوری کا پرچہ درج ہوگیا کچھ عرصہ ذکر اذکار ہوا پھر داخل دفتر۔‘‘
(گورنر صاحب کو اس کی اطلاع مل گئی مگر وہ خاموش رہے)

ہماری تاریخ میں ایک اور گورنر کا قصہ بھی درج ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے گورنر حمص سعید ابن عامرؓ کا یہ واقعہ اپنی مسند میں اس طرح لکھا ہے:
’’سیدنا حضرت عمرؓ ابن خطاب سے ملنے کے لیے اسلامی ریاستوں کے جو وفود مدینہ منورہ آتے رہتے تھے ان وفود کو رخصت کرتے وقت حضرت عمرؓ ابن خطاب ان سے فرماتے کہ اپنے علاقہ کے ایسے مستحق و نادار افراد کے نام لکھ دو جنھیں امداد کی اشد ضرورت ہو۔ اس طرح سیدنا عمرؓ ابن خطاب دور دراز کے مستحقین کی امداد فرماتے رہتے۔

ایک بار حمص سے بھی ایک وفد مدینہ منورہ آیا۔ حضرت عمرؓ نے حسبِ معمول اس وفد سے بھی مستحق افراد کی فہرست طلب فرمائی۔ فہرست میں سب سے پہلا نام لکھا تھا… سعید ابن عامرؓ… فہرست دیکھ کر حضرت عمرؓابن خطاب نے فرمایا کہ سعید ابن عامرؓ نامی تو گورنر حمص بھی ہیں۔ جواب ملا کہ یہ وہی سعید ابن عامرؓ ہیں جو حمص کے گورنر ہیں۔ خدا کی قسم تنگ دستی کی وجہ سے کئی کئی دن ان کے گھر چولہا نہیں جلتا۔ سعید ابن عامرؓ کا احوال جان کر حضرت عمرؓ ابن خطاب آزردہ ہوئے اور آبدیدہ ہوگئے۔ سعید ابن عامرؓ کی حالتِ زار پر اس قدر روئے کہ ان کی ریشِ مبارک آنسوئوں سے تربتر ہوگئی۔ حضرت عمرؓ ابن خطاب نے ایک ہزار دینار کی تھیلی سعیدابن عامرؓ کو بھجوائی جو انھوں نے فوراً خیرات کر دی اور امداد کا ایک دینار بھی رکھنا گوارا نہ کیا۔

ہماری روایت اور ورثہ جس قدر تابناک تھا ہماری یافت اور ترکہ اس قدر شرمناک ہے۔ ہمیں ملا کیا تھا اور چھوڑے کیا جاتے ہیں۔ ہے کوئی تعزیر جوا یسے کھلے ڈاکے اور ڈاکوؤں پر عائد ہوتی ہے لگتا ہے ہمارے رب نے ہماری تقصیر ہمارے ماتھوں پر لکھ دی ہے جہاں عدم احتساب ہمارا جرم اور عدم استغاثہ ہماری سزا کے طور پر جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔ ہمارا عہد سلامت صاحبان عالی شان گیلانی، زرداری، چودھری، میاں، مرزا، ملک، مخدومین اور ڈاکوئوں سے جانا جائے گا۔ ہمارا آغاز گورنر حمص جیسا صالح قانع اور عزت نفس کا امین اور ہمارا انجام مذکورہ گورنر پنجاب، خائن، طمع آلودہ اور عزت نفس سے عاری۔ زیاں ہائے زیاں کہ ہماری شناخت کیا تھی اور ہم پہچانے کن سے گئے۔

دعا ہے ’’اے اللہ ہم پر رحم فرما اور اس مملکت خداداد کو ایسا حاکم عطا فرما جو خائن، جھوٹا، شعبدہ باز، اقرباپرور ، عزت نفس سے عاری اور محض جہنم کا ایندھن ہونے کے بجائے خوش بخت، شجاع عدل آمادہ، مخلص، نیک اور دیندار ہو۔ ‘‘ (آمین)

بشکریہ :  اردو ڈائجسٹ ۔(لاہور)

ادارہ ”سنپ“اردو ڈائجسٹ لاہور  کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔
اسلاف کی  تواریخ کی ترویج میں معاونت کی التماس۔[شکریہ]