میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

دل جلے


ہمیں جناب رحمن ملک بہت پسند ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پولیس سمیت کئی خفیہ ایجنسیاں ان کے ماتحت ہیں اور ہمارا تعلق صحافت سے ہے. لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ ہمارا شمار بھی ان صحافیوں میں ہوتا ہے جن کو حکومت نے ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی بک بک بندکردیں۔ بک بک کرنا ویسے بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ اردو کے ابتدائی قاعدے میں یہ تاکید ہے کہ ”بک بک مت کر“ لیکن مشکل یہ آن پڑی ہے کہ قاعدہ پڑھنے والے القاعدہ والے سمجھے جانے لگے ہیں۔ جناب شاہین صہبائی کا کیا ہے۔وہ ملک سے باہر بیٹھے ہیں ‘ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ پاکستان آئے تو 2002 ءکی طرح ان کے خلاف پھر کوئی ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے۔ اس وقت وہ اسلام آباد میں دی نیوز کے گروپ ایڈیٹر تھے اور ان پر الزام تھا کہ انہوں نے جی ایچ کیو کے ایک اہلکار کے گھر سے واشنگ مشین چرائی ہے۔ اس وقت جی ایچ کیو ہی کی حکومت تھی ورنہ تو ان پر بھینس چوری کا الزام لگتا جو بھٹو صاحب کی جمہوری حکومت میں چوہدری ظہور الٰہی پر لگا تھا۔ لیکن یہ بھی تو ممکن ہے جناب شاہین صہبائی کو کپڑے دھونے میں دشواری پیش آرہی ہو۔ آج کل پڑھی لکھی خواتین خود کپڑے کہاں دھوتی ہیں۔یہ تو غنیمت ہے کہ ہم ان صحافیوں میں شامل نہیں ہیں جن کے بارے میں حکمرانوں کو کوئی منصوبہ بندی کرنا پڑے ۔پھر بھی ہم حفظ ماتقدم کے طور پر جناب رحمن ملک کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں گو کہ ان کا مستقبل اس وقت کسی گول ڈرم یا ڈول ڈرم (DOLDRUMS)میں ہے ۔ چنانچہ اس موقع پر ہم محاورے والے ”شاہ مدار“ کا کردار ادا نہیں کرناچاہتے۔ہمیں جناب رحمن ملک عدالت عالیہ لاہور کے فیصلے اور اس پر جناب صدر کے سوموٹو ایکشن کی وجہ سے یاد نہیں آئے بلکہ 14 مئی کے اخبارات میں ان کے ایک دلچسپ جملے کی وجہ سے یاد آئے جارہے تھے کہ اس اثناء میں عدالت نے یاد کرلیا۔ اچھا ہوا کہ وہ کراچی میں آبیٹھے اور لاہورہائی کورٹ سے ضمانت منسوخ ہونے کے بعد سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت کروالی۔ سندھ بہرحال جناب زرداری کا محفوظ قلعہ ہے بلکہ قلعہ معلیٰ ہے. اسی لیے صدر نے کراچی میں اتحادیوں کے کور کمیٹی اجلاس کے بعد رحمن ملک کو مشورہ دیا کہ وہ بار بار سندھ آتے رہیں‘ خاص طور پر جب تک عدالتی معاملات نمٹ نہ جائیں کیونکہ صدر کی طرف سے ان کو بیل آﺅٹ (BAILOUT)کرنے کے باوجود خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔حیرت ہے کہ ہم جناب رحمن ملک کے جس خوبصورت جملے کے شیدائی ہوئے‘ تقریباً سب اخبارات نے اس کو سرخی بنایا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رحمن ملک کی گفتگو میں یہی ایک جملہ کام کا تھا باقی تو بھرتی کے جنہیں شاعر حضرات ”برائے بیت“ کہتے ہیں۔ جناب رحمن ملک نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر کھڑے ہوکر فرمایا”پیپلزپارٹی ‘ ایم کیو ایم ا تحاد سے کئی لوگوں کے دل جل رہے ہیں۔یہاں تو بہت سے لوگوں کے چولہے نہیں جل رہے‘ چراغوں کے بجائے دل ہی جلائے جارہے ہیں لیکن ہمیں اس جملے پر تجسس ضرور ہوا کہ یہ کون لوگ ہیں جو پی پیمتحدہ اجلاس سے جلے بھنے جارہے ہیں۔ آخر سراغ لگاہی لیا۔رحمن ملک نے یہ انکشاف 13 مئی کو کیا تھا۔12 مئی کو قومی اسمبلی کے اجلاس کی روداد ہمارے سامنے ہے جس میں کچھ دل جلوں نے پھپھولے پھوڑے ہیں‘ آیئے دیکھتے ہیں یہ کون لوگ ہیں۔قومی اسمبلی میں صدرمملکت کے پارلیمنٹ سے خطاب پر بحث کے دوران ایک رکن اسمبلی اچانک پھٹ پڑے اور انہوں نے حکومت ہی نہیں بلکہ پی پیمتحدہ اتحاد اور رحمن ملک کے کردار پر کھری کھری سناڈالیں۔ یہ صاحب نہ تو لیگ کے تھے نہ ق یا کسی اورپارٹی کے بلکہ یہ تھے پاکستان پیپلزپارٹی کے جناب ظفر علی شاہ ۔ ظفر علی شاہ سندھ کے علاقہ نوشہرو فیروز سے پی پی کے رہنما ہیں اور بڑے پرانے لوگوں میں سے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں جب موجودہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اسپیکر قومی اسمبلی تھے تو سید ظفر علی شاہ ڈپٹی اسپیکر تھے۔اس سے ان کی پارٹی وابستگی اور بی بی سے قربت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔یہ جب بولے تو پورے ایوان میں سناٹا چھاگیا۔ظفر علی شاہ نے کہا کہ حکومت کراچی اور حیدرآباد کے معاملات پر بھی علاقے کے منتخب نمائندوں کو خاطر میں نہیں لاتی۔ سندھ ہی سے ایک اور پی پی رہنما سید امیر علی شاہ جاموٹ نے جو حیدرآباد سے منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں‘ ظفر علی شاہ کا ساتھ دیا۔ یہ شاید سیدوں کا اتحاد تھا مگر وزیراعظم بھی تو سید ہیں۔ امیر علی جاموٹ نے خاص طور پر متحدہ قومی موومنٹ سے ”ہینڈلنگ“ پر تنقید کی اور رحمن ملک کا نام لیے بغیر دونوں سینئر پارلیمنٹرینز نے ان کو الطاف حسین کو منانے کے لیے لندن بھیجنے پر پارٹی قیادت کو نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے ”کچھ لوگوں“ کو لندن بھیجا تاکہ ضلع حیدرآباد کی پرانی حیثیت بحال کرنے کے وزیراعظم کے اعلان پر متحدہ کے چیف الطاف حسین کی ناراضی اور برہمی کو دورکرکے انہیں رام کیا جائے۔اب معلوم ہوگیا ہوگا کہ جناب رحمن ملک کا روئے سخن کس کی طرف تھا او رپی پی‘ متحدہ اتحاد سے کس کے دل جل رہے ہیں‘ اس لیے رحمن ملک نے اگلے ہی دن دل جلوں کی بات کی۔ لیکن یہ تو ”اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی۔“ یہ صرف دو ہی دل جلے نہیں ہیں بلکہ سندھ سے پیپلزپارٹی کی پوری قیادت اور کارکنوں کا یہی عالم ہے کہ کانوں سے دھواں نکل رہا ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں اپنا اقتدار بچانے کے لیے بری طرح بلیک میل ہورہی ہے. لندن کے دبدبے کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم کو حیدرآباد ضلع کی پرانی حیثیت بحال کرنے کا اعلان چند گھنٹوں میں واپس لینا پڑا اور ترجمانوں نے اصرار کیا کہ وزیراعظم کے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے. لیکن وزیراعظم کا یہ اعلان توباتصویر محفوظ ہے کہ حیدرآباد کے لوگوں پر سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ ضلع کو تقسیم کردیا گیا ۔ حالانکہ بات کسی پر ظلم و ستم کی نہیں‘ سیاست کی ہے.2005 ءمیں ضلع حیدرآباد کے چار ٹکڑے کردیئے گئے تھے اور مٹیاری‘ ٹنڈوالہ یار‘ ٹنڈو محمد خان کے نئے اضلاع تشکیل دیے گئے ۔ ان اضلاع کے عوام کو سہولتیں حاصل ہوئی ہیں اور وہ خوش ہیں۔ مشکل یہ آپڑی کہ اب اگر حیدرآباد کی پرانی حیثیت بحال کی جائے تو موجودہ ضلع حیدرآباد پر متحدہ کی بالادستی ختم ہوتی ہے کیونکہ اکثریت متحدہ کے مخالفین کی ہوجائے گی اور اگر موجودہ حیثیت برقرار رکھی جائے تو حیدرآباد پیپلزپارٹی کے قبضہ میں نہیں آسکے گا۔ یہ ہے اصل معاملہ ‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ متحدہ کو حیدرآباد کی تقسیم تو قبول ہے مگرکراچی کے پانچ اضلاع کی بحالی قبول نہیں کہ اس طرح سٹی گورنمنٹ کی سلطنت سکڑجائے گی۔ اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ متحدہ کے دباﺅ پر پسپائی اختیار کرنے پر وزیراعظم کا دل بھی جل رہا ہے یا نہیں۔18 مئی کی اطلاع تو یہ ہے کہ صدر زرداری نے اپنے اتحادی کا یہ مطالبہ مسترد کردیا کہ تمام اہم مناصب پر منظور نظر افراد کو تعینات کیا جائے. اس مطالبہ میں خرابی کیا تھی؟ آخر پیپلزپارٹی اور صدر صاحب خود بھی تو یہی کررہے ہیں۔بقول چودھری شجاعت‘ مٹی پاﺅ۔ نوشہرو فیروز کے سید ظفر علی شاہ نے پی پی متحدہ اتحاد کی صورتحال ہی پر تنقید نہیں کی بلکہ اپنی پارٹی کی حکومت کو بھی رگید ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ ”حکومت پاکستان کو بناناری پبلک بنانے پر تلی ہوئی ہے. حیرت ہے کہ اپوزیشن تو پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی بات کرتی ہے اور ہماری حکومت اسے کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہے۔“ انہوں نے کہا کہ ہم سے کہا جاتا ہے کہ پارٹی لائن کی پیروی کریں لیکن یہاں کون ہے جو ہمیں بتائے کہ پارٹی لائن کیا ہے۔ پارٹی کے اجلاسوں میں ارکان سے مشورہ ہی نہیں کیا جاتا۔ یہ کیسی حکومت ہے جو اپنی لیڈر کے قاتلوں تک کونہیں پکڑسکتی۔“ ظفر علی شاہ نے ججوں کے تقرر کے لیے قائم عدالتی کمیشن میں وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کو شامل کرنے کی بھی مخالفت کی۔رحمن ملک صاحب نے اس تنقید کے جواب میں کہا کہ ”ہمارا الطاف حسین سے دوستی کا رشتہ ہے۔ ایم کیو ایم محب وطن جماعت ہے اور ملک کے لیے اس کی خدمات سب کے سامنے ہیں۔“ اب کرلیجئے 12 مئی کے سانحہ کی تحقیقات۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم یہ بنانا ری پبلک کیا ہے۔ یہ تو پتا ہے کہ بنانا ’’کیلے‘‘ کو اور ری پبلک ’’جمہوریہ‘‘  کو کہتے ہیں۔ تو کیا اس کا ترجمہ ”کیلائی جمہوریہ“ کیا جائے۔ جنرل پرویز مشرف بھی یہ اصلاح استعمال کیا کرتے تھے کہ ’’پاکستان بنانا ری پبلک‘‘ نہیں ہے۔ وہ پتا نہیں‘ پاکستان کو کیا بنا گئے اور پیپلزپارٹی کیا بنانا چاہتی ہے۔ سنا ہے ’’کیلے‘‘ میں کیلشیم بہت ہوتا ہے اور ’’جلے دل ‘‘کے لیے فائدہ مند ہے۔
مضمون نگار :  بندہ خدا۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]