میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

شاہ ایڈورڈ کی دوہائی !!!


دیکھیے اِس بیماری کا کتنا مُشکل نام ہی: ”آشوبِ چشم“ ۔ مگراب تک رائج ہے لہٰذاہرکس وناکس کو اِسی میں مبتلا ہوناپڑتاہے۔ کیا خواص اور کیا عوام۔ کوئی نہیں کہتاکہ: ”آنکھ آئی ہے“۔ ”آنکھ آنا“ توایک پرانا محاورہ ہے۔یہ ایسامرض ہے جس سے آنکھوں میں سُرخی اور کھٹک پیدا ہوجاتی ہے۔انکھڑیوں سے گدلا اور کیچڑ بھرا پانی بہنے لگتا ہے۔پپوٹے سوج جاتے ہیں۔قلق کاشعر ہے: روتے روتے سُجائی ہیں آنکھیں کوئی جانے کہ آئی ہیں آنکھیںآنکھ آنا“ بھی اُسی طرح سے متروک محاورہ ہوگیا ہے جس طرح سے ”آنکھ شرمانا“۔ اکبر نے سُنا تھا اہلِ غیر ت سے یہی کہزبان کھاتی ہے‘ آنکھ شرماتی ہے“۔مگر اب تو زبان لپ لپ بلکہ لپا لپ کھاتی ہی چلی جاتی ہے اور آنکھ ہے کہ قطعاً نہیں شرماتی۔شرم کیسی؟ کھانے والے تو بڑی دیدہ دلیری سے ملک کا ملک کھائے جارہے ہیں۔دیدہ دلیری بھی ایسی ہمارے ایک معزز رُکنِ قومی اسمبلی برسرِ ٹیلی وژن یہ اعلان کرچکے ہیں کہبدعنوانی (Corruption) کرنا ہمارا حق ہے“۔ یہ ”مستحقین“ وہ ہیں کہ جن کی اکثریت اَرب پتی ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرانے والے ارکانِ اسمبلی میں سے سب سے غریب“رُکنِ اسمبلی کے اثاثے فقط دوکروڑ نوے لاکھ کے ہیں۔ہائے ری غربت۔ باقی سب کے اِس سے اوپر ہی ہیں اور کئی کئی اَرب تک جاپہنچتے ہیں۔چلیے مان لیجیے کہ ہمارے اِن تمام حلف یافتہ ارکانِ قومی اسمبلی نے اپنے اثاثوں کے گوشواروں میں سچ ہی کہا ہوگا۔ سچ کے سوا کچھ نہیں کہا ہوگا۔ اعداد وشمارمیں کوئی ڈنڈی ماری ہوگی نہ ڈنڈا۔دیکھیے ہم سے پھر ایک متروک محاورہ سرزد ہوگیا۔ڈنڈی اُس زمانے میں ماری جاتی تھی جب تولنے کے لیے ڈنڈی والا ترازو استعمال کیا جاتاتھا۔ اب یہ ترازو ہی متروک ہے۔ اب تو برقی ترازو آگئے ہیں۔ ان میں گھپلا کرنے کے لیے ”ڈنڈی مارنے“ کی بجائے وہی طریقے استعمال کرنے پڑتے ہیں جو ”اِدارہ فراہمی  برق“ اپنے صارفین کے لیے ”برقی بِل“ تیار کرتے وقت استعمال کیا کرتاہے۔اِن طریقوں میں اُنگلیاں نہیں” ٹھینگااستعمال ہوتاہے۔ وہ بھی زبردست کا ٹھینگا! ٭٭٭ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے‘ گذشتہ ہفتے بھر ہم بھی آشوبِ چشم میں مبتلا رہے۔ دُنیا سے آنکھیں میچ لیں۔ عارضی نابینا بن گئے۔ (نہ کہ اپنے حکمرانوں کی طرح سے اعزازی نابینا)۔ٹٹول ٹٹول کر چلنے لگے تو تمام مصروفیات سے بیٹھے بِٹھائے فرصت مل گئی۔ کالم لکھنے سے بھی۔ کیوں کہ اِس دوران میں ہم نے کالم لکھنے کی بجائے لکھوانے شروع کردیے تھے۔اِملا کروانے۔ آج کل کے ”بین الاقوامی تعلقات“ کی زبان میں یوں سمجھ لیجیے کہ یوں ہمیں بھی Dictation دینے کا موقع مل گیا۔سوجن لوگوں کو ہمارے آشوبِ چشم کی بابت علم نہ تھااُنہیں بقولِ ہمارے مدیرِ محترم جناب اطہر ہاشمی‘ ہمارے کالم پڑھ کر اندازہ ہوگیا کہ یہ کسی مردِ آشوب زدہ کے کالم ہیں۔جب ہم نے اُن سے داد خواہی کے لیے اپنا حُسنِ کارکردگی بیان کیا کہ: ”صاحب! ہم عالمِ آشوبِ چشم میں بھی کالم لکھ رہے ہیں“۔ تو اُنھوں نے اِنھیں ”کالمِ آشوبِ چشم“ تسلیم کرتے ہوئے بڑی بے نیازی سے فرمایا: ”ہاں! تُمہارے کالموں کو پڑھ کر میں بھی یہی محسوس کررہاتھا“۔ ٭٭٭ آشوبِ چشم گدلے پانی سے پیدا ہوجاتاہے۔آج کل سرکار کی طرف سے پوری قوم کو یہی پانی سپلائی ہورہاہے۔تاکہ فرق کچھ نہ رہی.... چشمِ انسان وچشم نرگس میں۔اِس پُرآشوب پانی کی سپلائی کا ذریعہ سرکاری پائپ لائنیں ہیں۔ جوخود بھی خاصی گدلی ہوچکی ہیں۔ اِس کے باوجود(دوسال گزر جانے پر بھی) اب تک سرکار کا ہرکام” پائپ لائن میں“ ہے۔ برصغیر پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کے بعد....ترقی کی نئی راہیں جوزیرِ آسماں نکلیں.... تو اکبرنے جھٹ فریاد کی: پانی پینا پڑا ہے پائپ کا حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا پیٹ چلتاہے‘ آنکھ آئی ہی شاہ ایڈورڈ کی دوہائی ہی پیٹ چلنا“ بھی ایک متروک محاورہ ہے۔ اِس کا مطلب ہی: ”دست آنا“۔”آنکھ آئی ہے“ سے اکبر کی مرادیہ نہیں تھی کہ ”آنکھ Eye“ ہے۔(وہ تو ہئی)۔بلکہ ایک ہی مصرعے میں استعمال کیا جانے والا یہ دوسرا متروک محاورہ ہے جو اکبر نے آشوبِ چشم“ کے لیے استعمال کیا ہے۔پانی ہم اب بھی پائپ کا پی رہے ہیں۔ اور حرف آج بھی ٹائپ کا پڑھ رہے ہیں۔بلکہ یہ جو آپ کے زیرِ نظر حروف ہیں‘ یہ بھی ٹائپ کیے گئے ہیں۔البتہ اپنی دست آوری اوراپنے آشوبِ چشم کے لیے پہلے پبلک ”شاہ ایڈورڈ“ کی دوہائی دیا کرتی تھی۔اب شاہ ایڈورڈ ہوں‘ شاہ اوباما ہوں‘ شاہ کرزئی ہوں یا شاہ زرداری.... دُنیا بھر میں دست صرف اُنہی کو لگے ہوئے ہیں اور آشوبِ چشم بھی ان سب کو ایسا لاحق ہواہے کہ یہ سب کے سب چاردانگ عالم میں پکار پکار کر ”مُسلم دہشت گردوں“ کی دوہائی دیتے پھر تے ہیں۔ آج کل تو بس یہی دوہائی شاہ ایڈورڈ کی دوہائی ہے!
مضمون نویس:    ابو نثر
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]