میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

میرے یار! تو مسکراتا کیوں نہیں ہے؟

دیکھ میں جانتا ہوں کہ حالات اچھے نہیں ، روز روز کی افتاد نے تیرا ذھن مفلوج کر دیا ہے ، تو سوچ نہیں پا رہا ، مہنگائی کا رونا تو ازل کا ہے ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے ، مگر یہ تو دنیا ہے ، جس میں ہر رنگ ہے ، تم ایک ہی رنگ کیوں دیکھتے ہو ، کبھی تم کھلے میدان میں جی بھر کہ سانس لو توسہی  ۔ ۔ ۔
 کیا کہا ؟ ہوا میں بارود کی بُو ہے ، نہیں تو مجھے تو نہیں لگتی ، یار میں جیسے عادی ہو گیا ہوں ویسے ہی تم بھی عادی ہو جاؤ ، دیکھو تم جتنے حساس بنو گے ، اتنا ہی دکھ سہو گے۔
خون کا رنگ لال ہوتا ہے ، اب تمہیں لال رنگ سے خوف کیوں آتا ہے ، ذرا سا زخم لگ جائے تم بولائے پھرتے ہو ، دروازہ زور سے بند ہو تو تمہیں دھماکےکا گماں ہوتا ہے ، بس ڈرائیور جلدی میں بریک مارے تو تمہارے اوسان خطا ہو جاتے ہیں ، دکاندار مہنگائی کا رونا روئے تو تمہیں اس سے ہمدردی ہو جاتی ہے ، یار غریبوں سے ہمدردی اچھی بات ہے مگر تم تو غریب نہیں ہو نا تو پھرشکر ادا کرو اللہ کا اور اپنی زندگی مزے سے گزارو ، دوسروں کے دکھوں کواپنے اوپر طاری کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟
اگر کسی امریکی نےلاہور میں تین چار بندے مار دئیے ہیں  تو کیا ہوا ، روز لوگ مرتے ہیں ، اگر کسی نے خود کُشی کی تو کیا ہوا یہ بذدل لوگ کیا کرتے ہیں ، جو حالات سے لڑنا نہیں چاہتے ، امریکہ کی عوام دیکھو کیا وہاں قتل نہیں ہوتے کیا وہاں زیادتیاں نہیں ہوتیں سب کچھ ہوتا ہے مگر وہ لوگ ہماری طرح کسی حادثے کو نمائش نہیں بناتے ، دُبئی میں روزانہ قتل ہوتے ہیں روزانہ مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے کیا تم نے کبھی دبئی سے کوئی بریکنگ نیوز دیکھی ہے سوائے ناچ گانوں کے پروگرام کے ؟ انہی چینلز نے براہ راست ساری دنیا سے نئے سال کے استقبال کے مناظر دکھائے کیا یہ خوشیاں منانے والے افغانستان اور فلسطین میں روزانہ مرنے والوں کے بارے میں نہیں جانتے ، جانتے ہیں ، مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ لوگ بے وقوف ہیں حالات سےسمجھوتا نہیں کرتے ، ہم امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں مگر زندگی امریکیوںجیسی گزارنا چاہتے ہیں ، ہم یورپین کو بے راہ روی پر لعن طعن کرتے ہیں مگر خود اسی راہ پر چلنا فخر سمجھتے ہیں۔
میں جانتا ہوں تم بہت محب وطن ہو ، اور تمہیں وطن میں ہونے والے ہر برے واقعے کا دُکھ ہوتا ہے ، مگر تم سے کس نے کہا ہے کہ ہر وقت نیوز چینل دیکھو؟ کتنا اچھا زمانہ تھا جب ایک ہی چینل تھا رات کو صرف خبرنامہ ہوتا تھا جس کو صرف بڑے سنتے تھے نہ کوئی بحث تھی نہ مباحثہ ، میں تم سے کہتا ہوں صبح سویرے کے پروگرام دیکھا کرو انٹرٹینمنٹ چینل پر ، جیسے مایا خان کا شو ، جیسے جگن کا شو جیسے مانی وغیرہ کا شو ، تمہیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ پاکستان میں کوئی دکھ درد ہے کہ نہیں ، تمہاری صبح کھلکھلاتی ہنسی سے ہوگی اور شام گنگناتے لمحوں میں ہو گی ، اب تو اتنا اچھا ہو گیا ہے کہ چینلز کی تفریق ہو چکی ہے ، میں تو کہتا ہوں اپنے ٹی وی کی سیٹنگ سے نیوز چینل ہی ڈیلیٹ کر دو ، صرف انٹرٹینمنٹ چینل رہنے دو ، موویز دیکھو ، شیلا کی جوانی اور منی کی بدنامی دیکھو ، فلمی ستاروں کی جگمگاتی دنیا دیکھو ، اعضاء کی شاعری اور فیشن کی پُرکاری دیکھو ، ہنسنے ہنسانے والے پروگرام دیکھو ، ارے زندگی کے رنگ دیکھو  ۔ ۔ ۔
اور ہاں ایک اور طرح کے چینل بھی دیکھ سکتے ہو ، مذہبی چینل ، ہاں سارا دن تمہارا دین کی تعلیم میں گزرے گا ، آنکھیں تبرکات سے منور ہونگی اور کان حسین و جمیل مذہبی شاعری پڑھنے والیوں سے مسحور ہونگے ، تمہیں پتہ چلے گا کہ عبادات کیسے ہوتیں ہیں مشاہیر ہمارے کیا کیا کارنامے کرتے رہے ہیں اورتو اور تم چاہو تو وضو کے مسائل سے لیکر کھانے کے آداب اور کوے کے حلال وحرام ہونے پر بھی براہ راست  پروگرام میں عظیم مفتیوں سے براہ راست بات کر سکتےہو اور دنیا و آخرت کی فلاح پا سکتے ہو ، وہ تمہیں بتائیں گے کہ تم بیٹھےہوئے لیٹے ہوئے کون کون سی تسبیحات کا ورد کر کہ دنیا میں دولت ، عزت ، اورکمال حاصل کر سکتے ہو ، بیٹھے بٹھائے تم اللہ کی رحمتوں کی بارش میں بھیگ سکو گے۔
یار پلیز اب تو بدل جاؤ ، یہ لائف اسٹائل ٹھیک نہیں ہے ، تمہارا جو دل چاہے کرو مگر مجھے اتنا بتا دو کہ دنیا میں ایسا کیا ہو گیا ہے کہ تُو مسکراتا نہیں ؟؟؟ بتا نا میرے یار تُو مسکراتا کیوں نہیں ؟؟
مضمون   نگار:       اظہر الحق
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]