میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

ہمارا دشمن کون؟؟؟

’’ کیا دوستی دوستی کا بچکانہ کھیل ایک سراب نہیں ھے؟؟؟‘‘  
 وطن عزیز ، پاکستان کلمہ طیبہ کی بنا پر معرض وجود میں آیا تھا ، دو قومی نظریہ ہی اس کے استحکام و دوام کا سبب ہے ۔ مسلمان اور ہندو اپنے مذہب ، ثقافت اور طرز معاشرت کے انداز میں دو مختلف قومیں ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ تاریخ سے عدم واقفیت کی بنا پر پاکستان کے نہ صرف نوجوان طبقے بلکہ بعض بزرگ حضرات اور سیاست دان اور قومی لیڈر و رہنما بھی بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر بھارت سے گھل مل کر رہنا پسند کر رہے ہیں ۔ ہندو بنیے سے مل کر پیار کی پینگیں جھولانا چاہئیں ۔ کہ ہمارا دین اسلام تعصب کا درس نہیں دیتا وسعتِ قلب کا سبق دیتا ہے ۔ ہندوستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے ۔ سالوں اور صدیوں ہمارے اسلاف و آباءاجداد مل جل کر رہے، ان کی ایسی تاویلوں سے دین و وطن کی اقدار سے نابلد لوگ گمراہ ہو رہے ہیں ۔
قبل اس کے کہ ہندومت اور سکھ دھرم کے عقائد اور ان کے لیڈروں کے نظریات کو پیش کیا جائے پہلے اپنے اللہ کا فرمان جسے کلام متین میں واضح کیا گیا ہے ۔ خالق کائنات اپنی الہامی کتاب ، قرآن پاک میں یوں فرما رہے ہیں :
 
وَلاَ یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَکُم حَتّٰی یَرُدُّوکُم عَن دِینِکُم اِنِ استَطَاعُوا(البقرہ : 217)
اور یہ لوگ کافر تم سے ہمیشہ جنگ کرتے رہیں گے حتیٰ کہ اگر قابو پاویں تو تمہیں تمہارے دین سے منحرف کر دیں ۔
یٰاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا الکٰفِرِینَ اَولِیَآئَ مِن دُونِ المُومِنِینَ اَتُرِیدُونَ اَن تَجعَلُوا لِلّٰہِ عَلَیکُم سُلطٰنًا مُّبِینًا(النساء: 144)
اے ایمان والو!!! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ ۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلاف صریح حجت دے دو ۔
سورہ اٰل عمران میں اس مضمون کو یوں واضح کیا گیا ہے :
یٰاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا بِطَانَةً  مِّن دُونِکُم لاَ یَالُونَکُم خَبَالاً وَدُّوا مَا عَنِتُّم قَد بَدَتِ البَغضَآئُ مِن اَفوَاھہِم وَمَا تُخفِی صُدُورُھُم اَکبَرُ قَد بَیَّنَّا لَکُمُ الاٰیٰتِ اِن کُنتُم تَعقِلُونَ ۔(آل عمران : 118 )
اے ایمان والو ! اغیار کو اپنا رازداں و معتمد نہ بناؤ ۔ وہ تمہیں خرابی پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے ۔ وہ پسند کرتے ہیں وہ چیز جس سے تمہیں نقصان ہو ۔ ان کے مونہوں ( زبانوں ) سے ان کا بغض ظاہر ہو چکا ہے ۔ اورجو ان کے سینوں نے چھپا رکھا ہے وہ اس سے بھی بڑا ہے ۔ ہم نے تمہارے لیے اپنی آیات صاف بیان کر دی ہیں ۔ اگر تم عقل رکھتے ہو ۔
محترم قارئین !!!
 خالق حقیقی کی واضح رہنمائی کے بعد اب ذرا خیال فرمائیے گا ۔ کہ کیا ہندو ، سکھ ،  دیہریے اور یہود و نصاریٰ کافر قومیں نہیں…. ؟ ان کی دشمنی واضح نہیں…. ؟ آج دنیائے اسلام 52ممالک پر مشتمل ہے ۔ مگر متحد نہیں ہے ۔ کفار نے ہمارے اندر نفاق پیدا کر رکھا ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ نے خصوصاً مسلمان ریاستوں کو اپنی کالونیاں سمجھ رکھا ہے ۔ اور ہندو نے کوئی موقعہ ہاتھ سے گنوایا نہیں جب مسلمانوں پر ظلم نہ ڈھائے ہوں ۔ ذرا ان کے رہنماؤں کے نظریات کا جائزہ لیں ۔ شاید ہم سب انہیں ازلی دشمن جان کر اپنا دامن بچا لیں….
مشہور کانگریسی اور آریہ سماجی رہنما ، لالہ ہر دیال اپنے کتابچے ” میرے وچار “ میں یوں لکھتا ہے :
ہندوستان اور پنجاب میں ہندو نسل کی بقا کی خاطر چار چیزیں بہت ہی ضروری ہیں ۔ ان کے بغیر ہم (ہندو) محفوظ نہیں رہ سکتے ۔
1 ہندو سنگھٹن: (یعنی ہندو اتحاد ۔)
2 ہندو راج۔
3 مسلمانوں کی شدھی: (کسی نہ کسی طور پر مسلمانوں کو ہندو دھرم اپنانے پر مجبور کرتا ہے ۔)
4 افغانستان اور سرحدی علاقوں کی تسخیر ۔
آج کے حالات میں اس کے پیغام کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے ۔ امریکہ سے مل کر افغانستان کے سچے مسلمانوں کو دہشت گرد کے زمرے میں لا کر انہیں شہیدکیا جا رہا ہے ۔ ہمارے سرحدی اور جری مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہے ۔ جنہیں ہمارے قائداعظم ؒنے بھی پاکستان کے بے لوث محافظ فرمایا تھا ۔ پاک و افغان بارڈر محفوظ تھا ۔ جسے کمزور کیا جا رہا ہے ۔ امریکی سازش کے تحت ہمارے حکمران پاک آرمی سے ہی سرحدی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں ۔ ’’کتنے دکھ کی بات ہے ۔‘‘
گاندھی جو کہ ہندوؤں بلکہ بھارتی مسلمانوں میں بھی مقبول سمجھا جاتا ہے اور افسوس بعض مسلمان اسے اپنا نجات دہندہ بھی گردانتے ہیں ۔ ذرا اس کا نظریہ بھی پڑھ لیں ۔ آہنسا اور عدم تشدد کا نام نہاد مہاتما ، موہن داس کرم چند گاندھی کا بیان یہ ہے:”ہندومت ان عیسائیوں اور مسلمانوں کو تلوار کے زور سے بھی مجبور کرنے سے تامل نہیں کرے گا ۔ کہ وہ گاؤکشی کو بند کر دیں ۔
( بحوالہ الفضل وا سٹیٹمنٹ 9مارچ 1918 )
گاندھی بھلا یہ بیان کیسے نہ دیتا ۔ جبکہ خالص ہندو ہونے کے ناطے اس کی سوچ کا محور ” ارتھ شاستر “ تھا ، جس کا قانون یہ کہتا ہے : ” جو کوئی کسی گائے کی چوری کرے ، تشدد کا نشانہ بنائے ، یا اسے کسی ذریعے سے نقصان پہنچائے اس کو قتل کر دینا چاہیے ۔
( بحوالہ ارتھ شاستر صفحہ نمبر160 )
محترم قارئین !!!
 شاید پاکستان میں موجود وہ حضرات جو ہندو کی دوستی اس لیے پسند کرتے ہوں کہ یہ تو پچھتر سالہ پرانی بات ہے ۔ اب تو زمانہ بدل چکا ہے نئی روشنی پیدا ہو چکی ہے ۔ ہندو اب ایسی سوچ اور ایسا تعصب نہیں رکھتے تو ان کا خام خیال ہے ۔ ہندو اپنے عقیدے ، دھرم اور سوچ سے ذرہ بھر بھی پیچھے نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ تو پہلے سے بھی مسلمانوں کے ساتھ زیادہ تعصب رکھتے ہیں ۔
ہریانہ ( بھارت ) کے ہندوؤں کے بارے 2002ءمیں خبر اس طرح شائع ہوئی :ہریانہ میں چند نچلی ذات ( شودر ، دلت ) کے چند ہندو پہلے سے مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے کہ اونچی ذات ( برہمن و کشتھری ) کے ہندو وہاں جا پہنچے ۔ اس جرم کی پاداش میں پانچ نچلی ذات کے ہندوؤں کو اس مردہ گائے کی کھال اتارنے پر قتل کر دیا گیا ہے ۔(جنگ لندن 18-10-2002 )
ہندوؤں کے نزدیک مسلمان قوم ملیچھ ( ناپاک ، غلیظ ، وحشی ) سمجھی جاتی ہے ۔ ہندو مسلمان قوم ( جو ان کے گھاس پھونس کھاتے ” خدا “ گائے کو ہڈیوںسمیت چبا جاتے ہیں ) کو کیسے معاف کر سکتے ہیں ۔ اس کافر قوم کا نظریہ وہی پرانا ہے ۔ وہی عقیدہ اب تک ان کے خون میں رس بس چکا ہے ۔ انکے رہنماؤں ، گاندھی ، اور پرتاب سنگھ وغیرہ نے انہیں یہ سبق دیا ہے :
اگر تم ایک گائے کی خاطر کراچی سے مکہ تک کے تمام مسلمانوں کو بھی ختم کر دو تو بھی تھوڑا ہے ۔
درج ذیل ایک اور خبر پڑھئیے گا :
ہندو انتہا پسندوں کے مذہبی اجتماع ، دھرم سنسادہ میں گائے کے تحفظ اور احترام پر زور دیا گیا ہے ۔ اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ گائے کو قومی ورثہ ، قومی جانور قرار دیا جائے ۔ اس کے تحفظ کیلئے علیحدہ وزارت قائم کی جائے ، گاؤماتا کے تحفظ کیلئے 5 ارب روپے کا خصوصی فنڈ قائم کیا جائے اسے ذبح کرنے کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے جس کی سزا عمر قید یا موت مقرر کی جائے ۔
(بمطابق نوائے وقت لندن 28-02-2003)
بھارت سے شائع ہونے والے ایک انگریزی جریدے جنٹل مین (Gentleman) کو دئیے جانے والے انٹرویو میں بال ٹھاکرے نے تو دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے :
اگر بھارت میں امن قائم کرنا ہے ، اسے مستحکم کرنا ہے ۔ اسے دنیا کی طاقت بنانا ہے ۔ تو یہاں کے بسنے والے پندرہ کروڑ مسلمانوں کو ہندو بنانا ہوگا ، بھارت کے اندر سے ” اسلام “ کا وجود ختم کرنا ہوگا ۔
ہندو کی دشمنی کوئی نئی نہیں ہے اور نہ ہی یہ ختم ہو سکتی ہے ۔ مگر افسوس کہ پاکستانی لیڈر ہندو کو بھائی گردان رہے ہیں ۔ نظر تو یہ آتا ہے کہ یہ رہنما دینی و وطنی اقدار سے بے بہرہ ہیں ۔ اب ذرا ایک پمفلٹ کی تحریر ملاحظہ فرمائیے گا ۔جو حال ہی میں صوبہ گجرات ( بھارت ) میں ویشوا ہندو پریشد کے صوبائی لیڈر’’چینو این بھائی پٹیل “ کی طرف سے تقسیم کیا گیا ہے ۔ اس میں ہندو نوجوانوں کے جذبات کو مسلمانوں کے خلاف غلط و بے بنیاد پروپیگنڈا کرتے ہوئے یوں ابھارا ہے :
تمام مسلمان سلاطین مغلیہ بادشاہ اکبر اعظم سمیت بڑے جلاد ، سگ گزیدہ ، پاگل ، آمر ، حملہ آور اور لٹیرے تھے ۔ انہوں نے دو کروڑ بے گناہ ہندوؤں کو قتل کر دیا تھا ۔ اور یہ مسلمان ( ملیچھ ) چار چار شادیاں کرتے ہیں ۔ اپنی نسل تیزی سے بڑھا رہے ہیں ۔ خطرہ ہے کہ وہ ہندوستان میں رہ کر دوسرے پاکستان کا مطالبہ نہ کر دیں ۔
پھر کہتا ہے آٹھ ہزار میل کے فاصلے پر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور دس ہزار افغان مسلمانوں کو مار ڈالا جبکہ ہندوستان مسلمانوں کی دہشت گردی ایذا دہی سے گزشتہ تیرہ سو سال سے لڑ رہا ہے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہندو نوجوان مسلمانوں کو ختم کر دیں ۔
ہندوانہ تعصب کی انتہا ہو چکی ہے ۔ انہوں نے اپنے کئی ایک صوبوں کے نام بھی تبدیل کر دئیے ہیں ۔ مثلاً اترپردیش ، آندھرا پردیش ، مادھیر پردیش ، تامل ناڈو ، مہارا شٹر وغیرہ…. احمد آباد کا نام بدل کر ناوتی ، بمبئی کا نام بدل کر ممبئی اور حیدر آباد دکن کے نام کو اس طرح توڑ پھوڑ دیا گیا ہے کہ ان کی ( ہندو ) نوجوان نسل اسلامی ریاست کے تصور کو بھی بھول جائے ۔
21 جنوری 2002ءکوا سٹیٹ گورنمنٹ نے ایک سرکلر جاری کیا ہے ۔ کہ تمام اسکولوں میں”دھرتی پوجا “کی جائے ،طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ تمام طلبہ و طالبات (ہندو و مسلمان) اکٹھے ہو جایا کریں ۔ خالص گھی کے ایک سو دئیے جلائیں اور اونچی آواز سے سنسکرت زبان میں” اشلوک “کو گایاکریں ۔ یہ دھرتی کی پوجا کرائی جا رہی ہے ۔
قارئین کرام !!!
ہندو قوم اپنے عقیدے اور نظریات کے نفاذ کی خاطر کئی طرح کے ہتھکنڈے اور دھندے استعمال کر رہی ہے ۔ دشمنی کی انتہا ہے ہمارے مقدس مقامات ( مساجد ) کو شہید کر رہی ہے ۔ اور ہماری رواداری کی بھی مثال نہیں ملتی کہ ہم ان کے پلید و ناپاک اور بے بنیاد مندروں کی حفاظت کر رہے ہیں ۔ ان کے زائرین کی بڑی حفاظت کی جاتی ہے اور وہ ہمارے مسلمانوں کو بارڈر پار باضابطہ داخل ہونے پر بھی شہید کر رہے ہیں ۔ میچ دیکھنے گئے ، اتفاقاً ویزہ گم ہو گیا تو ہمارے معصوم خالد محمود لاہور کے ٹیچر کو بڑی سفاکی سے شہید کر دیا گیا ۔ اسی طرح محمد اکرم جو ذہنی توازن کھو جانے کی صورت میں غلطی سے بارڈ پار کر گیا ہندوستانی درندوں نے اسے شہید کر دیا ۔ دونوں کی لاشیں واہگہ بارڈر کے راستے لاہور بھیج دیں ۔
کبھی ہندوؤں ، سکھوں اور اغیار نے ہمارے کسی تہوار کو منایا ہو ؟ مگر افسوس ہم پر ہماری کوتاہیوں کے پیش نظر ہندوستانی حکومت کے بیباکانہ پروپیگنڈے اور بیہودہ فلموں کے ذریعے پاکستان میں غیر اسلامی کلچر کا زہر پھیل رہا ہے ۔ راجیو گاندھی کی بیوہ کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری ہو چکی ہے اس غیر اسلامی کلچر کا آج یہ نتیجہ ہے کہ ان کے بسنت کے تہوار کو پاکستانی اسلام زادے اور اسلام زادیاں رقص و سرور اور شراب نوشی کی محفلیں جما کر مناتے ہیں ۔ مکانوں کی چھتوں گلی کوچوں میں انڈین فلموں کی دھن پر بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں ۔ یہ ہے ہمارا منہ بولتا تہذیبی زوال ، غیر اسلامی اقدار کی چھاپ اور مسلم ثقافت سے کھلی بغاوت…. ! کیا یہ ان شہداءکے مقدس خون سے غداری کے مترادف نہیں…. ! جنہوں نے سرزمین وطن کو اپنے مقدس خون سے سانچا تھا ۔ کاش ! ہمارے جوان اپنی 40 ہزار بیٹیوں کی فریاد سن رکھے ہوتے جنہیں ہندو و سکھ اٹھا کر لے گئے اور وہ ہندو بچوں کو جنم دے رہی ہیں ۔ کاش!!! انہیں اس دردناک واقعہ کی یاد رہ جاتی جب 1947ءکی پہلی پاکستانی عیدالفطر کے موقعہ پر ہماری پاک دامن و باحیاءخواتین کے نازک اعضاءکو کاٹ کر ان سے ٹرین بھر کر واہگہ بارڈر کے راستہ لاہور روانہ کیا گیا اور لکھا گیا ” عیدالفطر کا تحفہ وصول کریں ۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارت کے ہندوؤں نے کبھی بھی مسلمانوں کا وجود ہندوستان میں برداشت نہیں کیا ۔ وہ مسلمانوں کی تباہی کیلئے ہر قسم کا روپ دھار سکتے ہیں ۔ مسلمان حکمرانوں کے زمانے میں بھی ہندو ہر قسم کی ریشہ دوانیاں کرتے رہے ۔ صدیوں پہلے ایک مشہور مؤرخ البیرونی اپنی مشہور کتاب ” کتاب الھندمیں لکھتے ہیں:
ہندو مذہب میں ہم سے کلی مغائرت رکھتے ہیں ۔ غیروں کو یہ لوگ ملیچھ( ناپاک ) کہتے ہیں ۔ اس لیے وہ غیروں کو ملنا جلنا ، شادی بیاہ کرنا ، قریب جانا یا مل بیٹھنا اور مل کر کھانا پینا جائز نہیں سمجھتے ، یہی وجہ تھی کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کو ایذا پہنچانا ، دکھ دینا ، ذلیل کرنا ، بائیکاٹ کرنا اور نفرت سے دور رکھنا اور قتل و غارت گری سے نیست و نابود کرنا اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیا تھا ۔
آج جبکہ امریکہ 11/9 کا بہانہ تراش کر مسلم امہ پر چڑھ دوڑا ہے ۔ ہندو کی دشمنی یہودیت سے پیچھے نہیں ۔ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشوں ، جاسوسی اور بغاوت میں پیش پیش ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے محسن پاکستان کے توسط سے پاکستان کو ایٹمی قوت بخشی ہے ۔ نہیں تو اس ازلی دشمن نے کبھی کا پاکستان پر حملہ کیا ہوتا ، جاسوس بھیج کر ، دھماکے کروا کر اپنے غبار نکال رہا ہے ۔ ایسے مکار و عیار و پرفریب ہمسایہ ملک سے دوستی کرنا احمقوں کی جنت میں بسنے سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔
بھارت ہمارا دوست ملک ہر گز نہیں ہے ۔ حال ہی میں ایک انتہا پسند ہندوسنگھ “ نے مسلمان دشمنی پر مبنی ایک کتاب ” ہندو پروٹوکول “ شائع کی ہے ۔ جسے برطانیہ کی مارکیٹ میں خوب پذیرائی ملی ہے ۔ لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکی ہے ۔ کتاب میں سے چند خطرناک اور انسانیت سوز حربے ملاحظہ فرمائیے گا :
1 مسلمانوں کے علاقوں میں فحاشی عام پھیلائی جائے ۔
2 مسلمانوں کے گھروں میں ملازمت کر کے انکی عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات پیدا کریں تا کہ ان کے گھر ہندو بچے پیدا ہوں ۔
3 اسرائیل کا ساتھ دیں کیونکہ وہ مسلمانوں کا بڑا دشمن ہے ۔
4 مسلمانوں کے کاروباری اداروں میں ملازمت اختیار کر کے ان کے کاروبار برباد کرنے کی کوشش کریں ۔
5 اگر آپ ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں ۔ تو مسلمان کے ہر نوزائیدہ بچے کے کان میں ” ہر اوم “ کہیں ۔
6 مسلمانوں کے ساتھ دوستی پیدا کریں ۔ ان کا اعتماد حاصل کر کے پھر ان کی پیٹھ پر چھرا گھونپ دیں ۔
7 غیر مسلموں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کریں ۔
8 مسلمانوں کے اندر نشہ خوری اور رنڈی بازی پھیلائیں ۔
9 سنگھ نے یہ سبق اپنی قوم کو دیا ہے ۔
مسلمانوں خصوصاً پاکستانی مسلمانوں کو یہ توقع کیسے ہو سکتی ہے کہ بھارت مسلمانوں کا دوست ملک ہے ہمیں اپنے نظام تعلیم اور میڈیا کے ذریعے اپنی نوجوان نسل کو بنےے کی دشمنی سے آگاہ کرنا چاہیے ۔ وگرنہ ہماری نئی نسل نظریہ پاکستان سے قطعی منحرف ہو جائے گی ۔
مضمون   نگار:ایک بندہ خدا
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]