”قیام ِ پاکستان سے پہلے اور قیام ِ پاکستان کے بعد“
ـــــــ قیام ِ پاکستان سے پہلے ــــــــ
جون 1857ء کو ملتان
چھاؤنی میں پلاٹون نمبر69کو بغاوت کے شبہ میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو
بمع دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا گیا۔ آخر جون میں بقیہ نہتی پلاٹون
کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ کیا جائے گا اور انہیں تھوڑا
تھوڑا کرکے تہہ تیغ کیا جائے گا۔
عوام تو عوام ہے ، چاہے جرمنی
کی سرد جنگ لڑتی ہو،یا پاکستان کی کرسی لوٹتی :
نواب اسلم رئیسانی (وزیر اعلیٰ
بلوچستان)
اب نوکیا کی
جانب سے سمارٹ فونز کے لیےسیمبئین اور میگو آپریٹنگ سسٹمز کی بجائے مائیکروسافٹ
ونڈوز فون 7.5 کا انتخاب کیا گیا ہے اور لومیا 800 اس سیریز کا پہلا فون ہے۔
فوج پر نیٹو کے حالیہ حملے کے
بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر ایک فکر انگیز تحریر
ایک ایسی قوم
جس کی پوری تاریخ عہد شکنی، خیانت، بے وفائی، خود غرضی اور ہوس جیسی صفاتِ رذیلہ سے
بھری پڑی ہو،جس کے اجداد مغرب بھر کے جرائم پیشہ افراد، اللہ تعالیٰ کی طرف سے
ملعون ٹھہرائے گئے یہود اور اندلس کے مسلمانوں کے دین، نفس و مال کوتاراج کرنے والے
عیسائی ہوں، جس کی ٹپکتی رال میں لاکھ ہا سرخ ہندیوں اور افریقیوں کے خون کی سرخی
عیاں ہو، صومالیہ ، یمن، افغانستان، عراق جہاں نظر دوڑائی جائے، کروڑہا انسان جس کے
ظلم کو آج تک سہہ رہے ہوں، دنیا بھر کے قحط زدہ علاقے جس کی خود غرضی اور ہوس
پرستی پر گواہ ہوں،جس کی معلوم تاریخ میں کوئی ایک بھی واقعہ اسکے خیر پر گواہی نہ
دے پا رہا ہو،اس پر کوئی اعتماد کرے اور اس سے خیر کی توقع رکھے تو کیونکر؟
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 21 مارچ 1948ءکو
بحیثیت گورنر جنرل مشرقی پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے ڈھاکا میں یہ اعلان کیا کہ
پاکستان کی سرکاری زبان صرف ”اُردو “ہوگی۔ یہ اعلان مشرقی پاکستان کے بنگالی
شہریوں کو پسند نہیں آیا۔ بنگالی مسلمان متحدہ پاکستان کی آبادی کا 54فیصد تھے۔ ان
کی زبان خطے کی قدیم زبانوں میں سے ایک تھی۔ جبکہ وہ سمجھتے تھے کہ اُردو چند سو
سال پرانی نسبتاً ایک نئی زبان ہے جس کو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد مشرقی
پاکستان کے علاقوں میں چند فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔ کیونکہ مسلم لیگ کا قیام بنگال
کے شہر ڈھاکا میں عمل میں آیا تھا۔ وہاں کے لوگ مسلم لیگ کے منشور اور ایجنڈے سے
کماحقہ‘ واقف تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانے کا
اعلان مسلم لیگی قیادت نے قیام ِ پاکستان تک کبھی نہیں کیا تھا اور نہ یہ بات لیگ
کے انتخابی منشور کا حصہ رہی ہے اور نہ ہی یہ ایشو تحریک ِ پاکستان کے دوران کبھی
سامنے لایا گیا تھا۔ اُنہیں قائداعظم کی نیت اور خلوص پر کوئی شبہ نہیں تھا۔ لیکن
یہ خدشہ ضرور تھا کہ بابائے قوم کے اِس اعلان سے اُن کی حق تلفی ہوگی‘ اُن کی زبان
دب جائے گی اور اُن کے نوجوان اُردو سے نابلد ہونے کی وجہ سے ترقی نہیں کرسکیں گے۔
”نواب راحت
خان سعید خان چھتاری 1940 ءکی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر
رہے۔انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس
کی سیاست سے لاتعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔نواب چھتاری اپنی
یاداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ:
یہ1997
اکتوبر کی آخر ی رات تھی ۔جوں جوں رات بیت رہی تھی اس کی بے کلی اور بے قراری میں
اضافہ ہوتاجا رہا تھا۔ وہ کبھی بیٹھ جاتی اور کبھی ادھر ادھر گھومنے لگتی ۔ اسے
طرح طرح کے اندیشے اور خیال آر ہے تھے۔ اس کا دلِ مضطرب مسلسل دعا میں مصروف
تھا۔
کسی جگہ ایک
بوڑھی مگر سمجھدار اور دانا عورت رہتی تھی جس کا خاوند اُس سے بہت ہی پیار کرتا
تھا۔دونوں میں محبت اس قدر شدید تھی کہ اُس کا خاوند اُس کے لیے محبت بھری
شاعری کرتا اور اُس کے لیے شعر کہتا
تھا۔عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی، باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی زیادہ بڑھ رہی
تھی۔جب اس عورت سے اُس کی دائمی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا
گیاکہ آیا وہ ایک بہت ماہر اور اچھا کھانا پکانے والی ہے؟یا وہ بہت ہی
حسین و جمیل اور خوبصورت ہے؟یا وہ بہت زیادہ عیال دار اور بچے پیدا کرنے والی عورت
رہی ہے؟یا اس محبت کا کوئی اور راز ہے؟
یزید کے معاملے میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم
ہیں: دو انتہائیں، اور تیسری راہ وسط ہے۔
دو انتہاؤں میں سے ایک کا
کہنا ہے کہ یزید کافر تھا۔ منافق تھا۔ اسی نے نواسۂ رسول کے قتل کی تمام تر سعی
کی، جس سے اس کا مقصد بھی رسول اللہ ﷺ سے اپنا بدلہ نکالنا تھا اور اپنے آباءو
اجداد کا انتقام لینا اور اپنے نانا عتبہ اور نانا کے بھائی شیبہ اور ماموں ولید
بن عتبہ وغیرہ کے خون کا حساب بے باک کرنا کہ جن کو نبیﷺ نے بدر کے روز علی بن ابی
طالب رضی اللہ عنہ اور حمزہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی تلواروں سے قتل کرایا تھا۔ اِس فریق کا کہنا ہے کہ
یزید نے در اصل بدر کے بدلے چکائے تھے اور جاہلیت کے حسابات بے باک کئے تھے۔ اس
فریق نے یزید کی زبان سے یہ شعر بھی کہلوائے ہیں:
میری اب تک کی گمشدگی سے محفوظ یاداشت
میں دو تین واقعات ایسے تھے کہ جب وہ سماعت تک پہنچے تو لگا یہ معاشرہ تباہی اور
بداخلاقی کی جانب تیزی سے گامزن اور عذاب الہٰی کا اہل ہوچکا ہے۔
اگر اس کی جگہ میں ہوتا تو اب تک گوانتا
ناموبے میں ہوتا یا کسی کال کوٹھری میں پھانسی کی سزا کا منتظر ہوتا۔ میرے اہل
خانہ اور دوست احباب کڑی تفتیش کے عمل سے گزر رہے ہوتے۔ میرے سیل فون میں موجود
تمام نمبرز کی جانچ پڑتال ہورہی ہوتی اور سب کے سب بے چارے اس جرم میں کہ میرے
موبائل میں ان کا نمبر saved تھا سخت ذہنی اذیت کا سامنا کررہے
ہوتے۔ وہ بے چارے بھی جو شاید مجھے جانتے تک نہیں۔
میری اس حرکت پر نہ جانے کتنے ٹاک شوز
ہوچکے ہوتے۔ شاید اس جرم کی پاداش میں نیٹو میرے وطن کی اینٹ سے اینٹ بجادیتا یا
پھر میرے اپنے ہی ملک کی سیکورٹی فورسز مجھے عالمی عدالت کے حوالے کردیتیں۔ دنیا
بھر سے میری، میرے عقائد، میرے نظریات کی مذمت کی جارہی ہوتی، مجھے انتہا پسند
،بنیاد پرست،دہشت گرد اور نہ جانے کیا کچھ کہا جارہا ہوتا،چاہے وہ میرا اپنا
انفرادی یا ذاتی عمل ہی کیوں نہ ہوتا یا پھر میرا پاگل پن ہوتا تب بھی۔
لیکن چونکہ وہ میں نہ تھا بلکہ کوئی اور
تھا اس لئے یہ سب کچھ نہ ہوا، بس ایک خبر ہوئی اور آکر گزر گئی، چند فالو اپس اور
بس، ایک خبر کی اہمیت ہی کتنی ہوتی ہے، یہ واقعہ بھی ماضی کا حصہ بن جائے گا،
ہمارا میڈیاجب چاہے تو رائی کا پہاڑ بنادے اور چاہے تو پہاڑ کو رائی
بنادے ۔
دیکھیے بات کتنی بڑھ چکی ہے۔ پھر بھی
کچھ لوگ وقت کے بگٹٹ بھاگتے گھوڑے کے پیچھے پیدل دوڑدوڑکر اُس کی لگام پکڑنے اور
اُسے پُرانی ڈگر پر واپس پھیرنے کے چکر میں”سلطان لہولہان“ ہوئے جارہے ہیں۔تو کیا
یہ ”رجعت پسندی“ نہیں ہے؟
”ٹورنٹ“P2Pکا ایک ایسا سلسلہ ہے جو ہمیں بہترین اور کارآمد فائلوں کی دستیابی میں مدد دیتا ہے، جیسے کہ: سافٹ ویئرز ، گیمز اور فلمیں وغیرہ وغیرہ۔انٹرنیٹ سے وابستہ لوگوں کی اکثریت”ٹورنٹ ڈاؤن لوڈنگ“کو اہمیت دیتے ہیں۔مگر اس کے لیے ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ سروس اور کمپیوٹر کا ہونا از حد ضروری ہے۔مارکیٹ میں جو”ٹورنٹ
ڈاؤن لوڈر“ دستیاب ہیں
وہ کچھ سست الوجودواقع ہوئے ہیں ، جس سے ہر ”ٹورنٹ
ڈاؤن لوڈر“شاقی شاقی سا ہے ۔
ڈاکٹر جِفری لانج (Dr. Jeffery Lang) امریکہ کی مشہور ترین یونیورسٹیوں
میں سے ایک کنساس یونیورسٹی میں ریاضیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ اُن کے مذہبی
سفر کا آغاز تو ۳۰ جنوری ۱۹۵۴ کو ہی ہو گیا تھا جب وہ برج پورٹ کے ایک
رومن کیتھولک خاندان میں پیدا ہوئے۔ اپنی زندگی کے ابتدائی اٹھارہ
سالوں میں اپنے مذہبی عقیدے سے وابستہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے عقیدہ میں
پختگی کی بجائے اپنے مذہب کے خدا اور عیسائیت سے متعلقہ سوالوں کے
دیئے ہوئے غیر منطقی جوابوں میں الجھتے چلے گئے۔
ان دنوں میں بری طرح
کنفیوز ہوں۔ امریکا بہادر کی باتیں مجھے کم ہی سمجھ آتی ہیں۔ کبھی صاحب بہادر عرب
میں سالہا سال سے اقتدار پر قابض حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ وہ عوام کی خواہشات کا
احترام کریں تو کبھی خود ان کی فرمائش عوامی خواہشات سے متصادم ہوتی ہے۔
چند دنوں سے دل پر ایک بوجھ سا ہے ، کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا
کروں۔کبھی تو دل چاہتا ہے کہ جامعہ کراچی سے محنت کے ساتھ پڑھ کر حاصل کردہ اپنی
چار ڈگریاں واپس کر دوں،شرم آتی ہے ان ڈگریوں کو دیکھ کر ۔ان پچھلے دنوں میں کئی
بار میں نے اپنی الماری کا قیمتی چیزوں والا خانہ کھولا تو مجھے لگا کہ اس میں
میری قابل فخر ڈگریاں نہیں بلکہ میری شرمندگی کا کوئی سامان رکھا ہوا ہے۔اور پھر
میں نے ڈگریوں سے اور انہوں نے مجھ سے نظریں چرا لیں،وہ بھی شاید خود کو بے وقعت
سی محسوس کر رہی ہیں ۔
گائے کا نام سن کر ہمیشہ دو چیزیں ہی ذہن میں آتی ہے ۔ایک ہندوؤں کی ”گاؤماتا“اور دوسری
تمام قوموں کی ”گاؤکھاتا“۔یعنی دودھ اور مزیدار کھانوں کے لیے گائے کا صحیح استعمال ہے ۔
خوش قسمتی سے یا بد قسمتی سے یہ گائے کی جنس ہمارے مادر وطن
”پاکستان“میں بھی موجود ہے ،لیکن حیوانی نہیں بلکہ انسانی اور وہ بھی
سیاسی ۔
سن 2011 کے شروع میں
تیونس سے عرب دنیا کی جس سیاسی کایا پلٹ کا آغاز ہوا تھا لیبیا اس فہرست کا تازہ
ترین باب ہے جہاں آہنی ہاتھوں سے حکومت کرنے والے عرب آمروں کا انجام نوشتۂ دیوار
بنا ہے۔
عرب جمہوریہ لیبیا کے
کرنل معمر قذافی طویل ترین عرصے تک برسراقتدار رہنے والے عرب رہنما تھے۔
محبت و نفرت کی یہ کہانی بھی عجیب ہے ۔ہم بہ یک وقت امریکا سے نفرت بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی” گرین کارڈ“ کے حصول میں اپنی زندگی کے بہترین شب و روز اپنی پیشانی پر ”برائے سیل“ کی تختی آویزاں کیے نیلام کیے دیتے ہیں۔ بزرگ کہتے ہیں کہ :” جس گھر میں بیری ہو پتھر تو آتے ہیں۔“
انٹرنیٹ ہماری روزمرہ کی زندگی کا ایک اہم حصہ بنتا جارہا ہے۔ یہ معاشروں اور افراد کی زندگیوں کو آسان بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔ وہ اسے ڈیٹا محفوظ کرنے، پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے، ڈیزائننگ، ایڈیٹنگ اور زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں میں استعمال کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے اس زبردست کردار نے مجرموں اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اسے دہشت گردی کے آلے کے طور پر اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کریں۔
”سافٹ ویئر کی لاگرز“کے بعد ایک کمپنی نے ”ہارڈوئیر کی لاگر“ متعارف کروائے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان کی پہچان بھی بہت مشکل ہے۔ ’’کی لاگرز‘‘ کی افادیت سے ناآشنا حضرات کو بتاتے چلیں کہ کی لاگرز ایسے سافٹ ویئر ہوتے ہیں جو آپ کے سسٹم پر انسٹال ہونے یا کرنے کے بعد چھپ کر آپ کے ’’کی بورڈ‘‘ کی ہر دبائے ہوئے بٹن کا ریکارڈ محفوظ کر لیتے ہیں جو بعد میں اس سافٹ ویئر کو استعمال کرنے والے کی پہنچ میں ہوتا ہے۔ چاہے آپ نے کی بورڈ کے ذریعے اپنا کلمہ شناخت(Pass Word) کسی ویب سائٹ پر اپنا ای میل اکاؤنٹ کھولنے کے لیے دیا تھا یا آپ نے کسی ’خاص‘ شخصیت کو ای میل لکھی تھی جسے آپ کسی تیسرے شخص کی نظر سے بچانا چاہتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔
ایک تحقیق کے مطابق پرانی کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیوز پر موجود ڈیٹا کو جعلسازوں اور ہیکرز سے محفوظ رکھنے کا سب سے محفوظ طریقہ یہ ہے کہ ہارڈ ڈرائیو کو توڑ کر اسے ناقابلِ استعمال بنا دیا جائے۔
تحقیق کے مطابق جعلساز اور مجرم انٹرنیٹ پر ہونے والی نیلامیوں اور کچرا دانوں سے پرانے کمپیوٹر حاصل کرتے ہیں اور پھر آسانی سے دستیاب سافٹ ویئرز کی مدد سے ان پر موجود مواد اور معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔
ہر چیز جو آپ کے استعمال میں ہے آپ کی توجہ کی مستحق ہے اور کمپیوٹر کا معاملہ بھی کچھ محتلف نہیں ہے ۔یہ بھی آپ کی توجہ کا طالب ہے ۔کیا آپ نے کبھی سوچا کہ گھر کی صفائی کے ساتھ کمپیوٹر کی صفائی بھی ضروری ہے،جی ہاں کمپیوٹر کی صفائی نہ ہونے سے نہ صرف اس کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے بلکہ آپ محتلف بیماریوں کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔میاں جی پوچھتے ہیں کہ بھائی کی بورڈ صاف نہ ہو تو واقعی اس میں جراثیم جمع ہو سکتے ہیں لیکن کارکردگی پر اثر ؟یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی ۔تو ان سب کے لئے( جن کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی) عرض ہے ،مدر بورڈ میں مٹی جمع ہو جانے سے بسز،کیبلز وغیرہ کی رزسٹینس بڑھ جاتی ہے اور اور ہیٹنگ کی بنا پر نہ صر ف کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ کمونینٹس کی زندگی بھی کم ہو جاتی ہے تو کیسے فالتو مٹی سے اپنے سسٹم کو صاف رکھنا ہے۔
رمضان کے شروع ہونے سے پہلے میرے دماغ میں جو بلاگی مواد آرہا تھا رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اڑ گیا ، رمضان کی آمد میں میرے دماغ میں کھلبلی ہونے لگی کہ رمضان کیسے گزرتا ہے ، مساجد کی رونقیں اور کچھ رمضان میں اپنے شب و روز کے بارے میں لکھنا چاہیے ۔ لیکن رمضان جہاں برکتیں لاتا ہے وہیں مصروفیات میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے لہذا باوجود خواہش کے میں کچھ لکھ نہ سکا ۔ کچھ دن سے عامر لیاقت (منافقِ اعظم )کی ویڈیو پر شور مچ رہا ہے ،
حقیقی کہانی سے ماخوذ ایک غیر روایتی بہترین انگریزی فلم
فلم کی کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو JFK بین الاقوامی ہوائی اڈے میں چند قانونی پیچیدگیوں کے باعث پھنس جاتا ہے اور نیویارک میں داخل نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی اسے واپس اس کے ملک ”کراکوژیہ“بھیجا جا سکتا ہے۔ لہٰذا وہ ہوائی اڈے کے بین الاقوامی لاؤنج میں رہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
دنیا میں سافٹ وئیر کی سب سے بڑی کمپنی”مائیکروسافٹ کارپوریشن“ کے مالک”بل گیٹس(Bill Gates)“ شاید دنیا میں سب سے زیادہ جنک میل حاصل کرنے والے شخص بھی ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ اُن کی کمپنی کا پورا ایک ڈیپارٹمنٹ ان کے ای میل پیغامات کو فلٹر کرنے کے لیے موجود ہے۔ مائیکرو سافٹ کے مالک ”بل گیٹس“ کو روزانہ تقریبا چار ملین ای میل پیغامات ملتے ہیں ۔
مولانا الطاف حسین حالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی نظم ”کلمہ گو مشرک“میں حالیہ دور کے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔مسلمانوں کو آئینہ دکھا کر انہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے زعم میں شاداں اور فرحاں ہوں کہ ہمارے تمام اعمال صالح ہیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین کے مستحق ہیں اور وقت آنے پر پتہ چلے کہ جنت کی خوشبو بھی میسر نہیں ۔۔۔۔حالاں کہ جنت الفردوس کی خوشبو میلوں کی مسافتوں سے محسوس کی جا سکے گی۔۔۔
حیدر آباد دکن ، موجودہ ہندوستان کی جنوبی ریاست آندھرا پر دیش کا دارالحکومت اور ریاست کا سب سے بڑا تیزی سے ترقی کی جانب گامزن شہر ہے ۔حیدرآباد دکن اپنے سنہری تاریخ اور ثقافت کی وجہ سے مشہور ہے ۔حیدرآباد دکن کو موتیوں اور مسلمان نظام بادشاہوں کا شہر کہا جاتا ہے ۔ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔اردو اور تیلگویہاں کی بولی جانے والی بڑی زبانیں ہیں ۔موجودہ دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، آئی ٹی اور بایوٹیکنالوجی کا مرکز مانا جاتا ہے ۔ حیدرآباد کے انفو ٹیک پارک کو “سائبرآباد“ کے نام سے جانا جاتاہے۔
17رمضان المبارک 2 ھوہ دن ہے جب کفرواسلام کا پہلا معرکہ پیش آیاتھا۔بدرکا میدان اس معرکہ میں اہل ایمان کی کامیابی اور اہل کفرکی شکست فاش کا گواہ ہے۔یہ وہ دن ہے جب اپنی ”عددی اکثریت“ ، ”اسلحہ کی فراوانی“ اور ”مادی وسائل سے مالامال“ ہونے کے غرور میں کفار نے یہ سوچا کہ وہ یثرب کی چھوٹی سی بستی جو کہ اب مدینة النبی بن گئی ہے اس پر چڑھائی کرکے اسلام کے چراغ کو گل کردیاجائے تاکہ جہالت کی تاریکی کبھی دورنہ ہو اور دنیاایمان کی روشنی سے منور نہ ہونے پائے۔ لیکن بقول شاعر
عیسائیت کے سب سے بڑے فرقے ”رومی کیتھولک “اس وقت وجود میں آئی جب 1054عیسوی میں مشرق(ایشیاء اور مشرقی یورپ )اور مغرب (مغربی یورپ )میں آباد عیسائیوں کے مابین متفرق وجوہ کی بناء پر نزاع نے جنم لیا ۔مشرقی عیسائیوں نے مشرقی قدامت پسند کلیسا (ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ)اپنالیا ، جس کا صدر مقام قسطنطنیہ تھا۔مغربی عیسائیوں نے رومی کیتھولک کلیسا کے نظریات قبول کیے جس کا صدر مقام روم تھا۔
پروفیسر سودائی نے 1944 میں اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران ایک نظم کہی تھی، ”ترانۂ پاکستان” اور یہ بے مثال مصرع اسی نظم کا ہے۔
آپ سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ یہ مصرع کیسے آپ کے ذہن میں آیا تو آپ نے فرمایا کہ:” جب لوگ پوچھتے تھے کہ، مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کا مطلب کیا ہے ؟؟؟“تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہیئے کہ:”پاکستان کا مطلب کیا ہے؟؟؟“
یوں تو دفتر میں یہ خبر کئی ہفتوں سے گردش میں تھی کہ کامران سمیت سینکڑوں لوگوں کی نوکریاں خطرے میں ہیں مگر جس روز کامران کو برخاستگی کا پروانہ ملا اس دن کامران کو بہت زمانے بعد ایک گہرا صدمہ ہوا۔ اسے یوں لگا کہ جیسے وہ اس دنیا کی سب سے ناکارہ شے ہو۔ برطرفی کا نوٹس ہاتھ میں پکڑانے کے ساتھ اسے محافظوں کی نگرانی میں عمارت کے باہر پہنچا دیا گیا۔ کامران کو اچھی طرح پتہ تھا کہ یہ احتیاط اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جس میں برخاست کیے جانے والے ملازم نے اپنے کمپیوٹر کے ذریعے پوری کمپنی میں وائرس دوڑا دیا یا کسی اور طور سے اپنے اوپر کی جانے والی زیادتی کا انتقام لیا۔ یہ علم رکھنے کے باوجود کامران نے یوں عمارت سے بے دخل کیے جانے پہ اپنی ہزیمت محسوس کی۔
24 مئی کو شائع ہونے والے فتوے میں سعودی عرب کے مفتی عام اور سعودی ہیئت العلماء کے سربراہ مفتی عبدالعزیز بن عبد اللہ آل الشیخ نے زور دیا تھا کہ : ”انسان صرف اسی وقت سجدہ کرسکتا ہے جب اس کو اللہ کی کوئی نعمت نصیب ہو جب کہ میرے خیال میں فٹ بال اور فٹ بال کی کامیابیوں میں کسی قسم کا کوئی فائدہ و منفعت نہیں ہے... جوشخص خدا کو یاد کرنا چاہتا ہے بہتر ہے کہ اپنے وجود کے اندر ہی خدا کو یاد کرے اور اندرونی ذکر و یاد اس قسم کی حرکتوں سے زیادہ بہتر ہے۔“
نبی مہربان ،نبی آخر الزمان صلی الله علیہ وآلہ و سلم کا فرمان عالیشان ہے کہ : اسلحہ مومن کا زیور ہے ۔(الحدیث) نبی صلی الله علیہ و سلم اور ان کے صحابہ اکرام رضی اللہ علیہم اجمعین کی میراث میں سامانِ حرب کے علاوہ کبھی کوئی مال و زر کے انبار اور اپنی ضرورت سے بیشتر بغیر زکوٰۃ نکالے کوئی اضافی سامان نہیں ملے ۔
دو نوجوان امیر المؤمنین عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کی مجلس میں داخل ہوتے ہی مجلس میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں کہ :”اے امیر المؤمنین ! یہ ہے وہ شخص۔“
وہ نماز فجر سے فارغ ہو کر گھر پہنچے ہی تھے کہ یکایک دروازے پر ایک زور دار دستک ہوئی ۔وہ حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی ہوئے، کیوں کہ آج تک کسی نے ان کا دروازہ اس انداز سے نہیں کھٹکھٹایا تھا۔دوڑے ہوئے گئے مگر بڑے سکون کے ساتھ دروازہ کھولا تو انہوں نے دیکھا کہ ایک فوجی گھوڑے پر سوار نیزہ ہاتھ میں تھامے کھڑا ہے ۔اس سے پہلے کہ وہ اس شخص سے دریافت کرتے کہ تم کون ہو وہ فوجی فوری طور پر گھوڑے سے اترا اور ان کے مکان میں اجازت لیے بغیر انتہائی بے تکلفی کے ساتھ اندر داخل ہونے لگا ۔
کچھ دنوں پہلے کی بات ہے ایک آدمی گھر میں موبائل چارج کر رہا تھا۔اسی اثناء میں موبائل کی گھنٹی بج اٹھی ۔ اس نے چارجنگ کے دوران ہی موبائل کال کو ریسیو کر کے کان سے لگا لیا۔
دسمبر ۱۹۵۵ءکی ایک سرد شام کو دِن بھر کی پُر مشقت اور تھکا دینے والے سلائی کڑھائی کے کام سے فراغت پا کر روزا پارکس نامی ایک سیاہ فام عورت، اپنےدستی تھیلے کو مضبوطی سے سینے سے چمٹائے اور اُس سے گرمی کا احساس پاتے ہوئے سڑک پر جا رہی تھی۔
کولمبیا کی ایک یونیورسٹی میں ریاضیات کے لیکچر کے دوران کلاس میں حاضر ایک لڑکا بوریت کی وجہ سے سارا وقت پچھلے بنچوں پر مزے سے سویا رہا، لیکچر کے اختتام پر طلباء کے باہر جاتے ہوئے شور مچنے پر اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ پروفیسر نے تختہ سیاہ پر دو سوال لکھے ہوئے ہیں۔
مدارس اسلامی احیاء کی ممد و معاون سب سے اولین اور بہترین صورت ہیں ۔مدارس لارڈمیکالے کے نظام تعلیم سے مستفیض شدہ اذہان و قلوب کے حلقوم کےکانٹے بنے ہوئےہیں ۔
آج سرِشام مزاجِ من کچھ ناگفتہ بہ تھا۔میری کچھ مہینوں سے یہ عادت ہو چلی ہے کہ جب بھی مزاجِ من ذرا سا بھی بوجھل ہوجائے تو میں اپنی گلی کے نکڑ پہ ’’اچانک ہوٹل‘‘ میں چائے کی کچھ چسکیاں لینے وارد ہوجاتا ہوں حالانکہ میرے دعاگو(ناقدین )بھی یہ خوب جانتے ہیں کہ میری چائے سے کچھ ساس بہو سا رشتہ ہے۔
دنیائے کرکٹ کا تیز ترین باؤلر شعیب اختر 13اگست 1975ءکو راولپنڈی کے قریب واقعہ ایک قصبے مورگہ میں پیدا ہوا۔ ان کے والد صاحب اٹک آئل ریفائنری میں ملازم تھے۔شعیب اختر پاؤں چپٹے ہونے کی وجہ سے چار سال کی عمر میں اپنے پاؤں سے چل پایا۔
جب کسی فرد یا گروہ کا ریاست اور ریاستی اداروں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے تو پھر وہ خود اپنی عدالتیں لگانا شروع کر دیتے ہیں اور موقع پر ہی لوگوں کی قسمت کے فیصلے کرنا شروع کردیتے ہیں ۔
برصغیر پاک و ہند میں طرح طرح کے محاورے استعمال کیے جاتے ہیں ۔کچھ محاورے تو اردو زبان دانوں کی ایجاد ہے اور کچھ دوسری زبانوں سے مستعار لی گئی ہیں ۔ محاورات کی تاریخی پس منظر بھی ہواکرتی ہیں ۔ہم آج جس محاورے کا تذکرہ لیے بیٹھے ہیں ۔ اس کا پس منظر تاریخی بھی ہے اور دلچسپ بھی ۔۔۔۔
توہین ِ رسالت تو برداشت ہے مگر توہین ِ قیادت برداشت نہیں
کچھ عرصہ قبل جب نبی کریم ﷺکی شان میں پے در پےگستاخیاں جاری تھیں تو کراچی کاایک مخصوص طبقہ، نام نہاد مسلمان ،خاموش تماشائی بنا رہا اور جب یہ احتجاج دنیا بھر کے ممالک میں ہونے لگا تب بھی یہ مخصوص بے دین طبقہ خاموش رہا ۔۔۔