میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

اچانک بوڑھا


زمانہ مستقبل سے سفر ماضی کے لیے آنے والوں کو بارہا سمجھایا کہ قبلہ یہ جو عجائبات عالم آپ اٹھائے چلے آتے ہیں یہ اس زمانے میں ہمارے کسی کام کے نہیں بلکہ آپ ایسے مستقبل کے رہائشی بھی اس سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ابھی کل ہی بات ہے کہ ایک پیر مرد اچانک نمودار ہوا عجیب وضع کا لباس؛ ہاتھ میں وہی مستقبل کے آلاتِ مواصلات؛ ظاہر ہوتے ہی ہمارا تفصیلی معائنہ کرنے لگا، ایسے اچانک بوڑھے ہمیں بالکل نہیں بھاتے اس پر اتنی بے تکلفی تو گویا مزاج پر قیامت ہوگئی۔ پوچھا قبلہ آپ کی تعریف؟ کہنے لگےبوجھو تو جانیں؟ اندازہ تو تھا کہ شخصیت مرد کی ہے لیکن کوئی دوسرا سوال نہیں سوجھا تو یہی داغ دیا کہ شخصیت مرد کی ہے یا عورت؟۔ چراغ پا ہوگئے کہنے لگے ناہنجار اپنا آپ نہیں پہنچانتا، دیدوں کا پانی مرگیا ہے۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ وہی کہوں اتنا خبطی بڈھا اور کوئی کیسے ہوسکتا ہے۔
پوچھا کہیے کیسے آنا ہوا؟ کہنے لگے ماضی کو یاد کرتا ہوں تو بے رونقی ستاتی ہے سوچا اپنا ماضی رنگین کردوں۔
لیکن ہم فی الحال موجودہ رنگینیوں سے مکمل مطمئن ہیں اور اپنی زندگی میں مزید رنگ بھر کر اسے بھدا نہیں بنانا چاہتے۔
آخر کو بوڑھا کس کا تھا، آگ بگولہ ہوگئے؛ کہنے لگے ہمارے ماضی پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا تمہارے حال پر تم کو ہے۔حقِ ذات پر زمان و مکان کی اس ابتلا کا پہلا مقدمہ ہماری موٹی عقل میں کسی طور نہیں سمانا تھا، بس اتنا یاد رہا کہ آج اگر تھوڑی سی ڈھیل دی تو بڈھا اپنا بڑھاپا سنوارنے کی خاطر ہمارے حال کو اُس حال تک پہنچادے گا کہ یاد ماضی کے ساتھ ساتھ تشددِمستقبل بھی ایک مستقل استعارہ بن کے رہ جائے گا۔
ہم نے ادھر ادھر کی باتوں میں الجھانا چاہا پوچھا فرمائیے  مارکیٹ کی کیا صورتحال ہے؟ کیا پیٹرولیم کی قیمتیں مستحکم ہیں؟ فورا بھانپ گئے کہنے لگے لالچی انسان؛ مستقبل اور حال کے تعلقات اس طرح نہیں چلتے، تم ماضی کے لوگوں نے افسانے پڑھ پڑھ کر نا جانے ہم لوگوں کو کیا سمجھ رکھا ہے۔ اتنی بے عزتی کسی اور نے کی ہوتی تو نہ جانے کیا کر  گزرتے پر اپنا بڑھاپا کون زخمی کرتا ہے، لیکن بڈھے کا خناس دیکھ کر اپنی شریک حیات پر بڑا ترس آیا۔
ماحول کا تناؤ دور کرنے کے لیے ہم نے بزرگوار سے پوچھا کہ سنائیے انسانیت کا کیا حال ہے؟ اب تو انسان بڑا آسودہ حال ہوگا؟ عجیب افسردگی در آئی، بتانے لگے نت نئے آلات ہیں مقتل میں اب تو، لیکن وہی ماضی کی خرافات ہیں جھگڑنے والی۔ کہیں خدا کے ہونے پر قتل تو کہیں خدا کے نا ہونے پر خون۔ کسی کو آزادی نے گھائل کیا تو کوئی غلامی کا شکار۔ اب بھی طاقتور رولتا ہے کمزور رلتا ہے؛  ظالم بولتا ہے اور مظلوم سنتا ہے۔ بس اُس ایک لمحے میں حال نے ہتھیار ڈال دیے۔ اگر مستقبل کچھ بہتر ہوسکتا ہے تو بزرگوار شروعات کیجیے؛ اپنے ماضی سے ہی کیجیے حقِ ذات کا فیصلہ تو ہوتا رہے گا۔
مضمون نویس:    راشد کامران
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]