وہ اس طویل سفر میں میرا ہم سفر تھا اور متحدہ قومی موومنٹ سے شدید متاثر بھی! اس کا تعلق ساہیوال سے تھا ہم دونوں فارغ بھی تھے اور وقتی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے رہنے پر مجبور بھی! اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور بولا کچھ بھی ہو متحدہ کے ناظم نے کراچی کا نقشہ بد ل دیا ہے سڑکیں ، پل ، پارک ، پلے گراونڈ، کراچی تو اب و ہ کراچی لگتا ہی نہیں! ہاں کام تو بابا جی نے بھی کیا تھا اس نے اعتراف کیا مگر۔۔۔میں نے کہا درست مگر جانتے ہو ان ترقیاتی کاموں کا ایک اور فائدہ بھی اہلیان کراچی کو ہوا ہے اور وہ یہ کہ کراچی میں ان برسوں میں موبائل چھیننی، لوٹ مار اور ڈکیتیوں کی شرح بھی کم ہوئی ہے وہ اس لئے کہ شہر کے ترقیاتی کاموں سے ملنے والے کمیشن کی غیر معمولی شرح کے بعد اب کارکنوں اور قیادت کو اس کی ضرورت نہیں رہی۔ ساتھ ہی ہاؤسنگ ، جہاز رانی وغیرہ جیسی وزارتوں سے حاصل ہونے والی کروڑوں کی رقوم بھی کافی ہیں ،میں نے اسے بتایا کہ کراچی کے ٹھیکوں میں 40فیصد تک کی رقم کمیشن کی مد میں دی جاتی ہے اورموت کے خوف سے لرزا ںٹھیکیدار جانتے ہیں کہ منہ کھولنے کا مطلب کیا ہے ؟اور اگر کوئی منہ کھولے بھی تو شہر میں اسے چھاپنے یا نشر کرنے کی ہمت کس میں ہی؟ سوات میں کوڑوں کی مشتبہ ویڈیو چلانے والے چینلز بھلا کراچی جیسے ”دورافتادہ “ مقام کی خبریں کیسے بتاسکتے ہیں؟۔ میں نے مزید عرض کیا اور بھلا نعمت اللہ خان صاحب کے تیز رفتار کام کے بعد اگر اسے اسی رفتار سے جاری نہ رکھا جاتا تو کیا یہ متحدہ کی سیاسی موت نہ ہوتی؟ ایسے میں کہ جب شہر پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھنے کاحکم بالاحکام کی طرف سے بھی حاصل ہو جائے اور فوجی آمر اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہو تو پھر کام تو کرنا ہی پڑتا ہے ناں ۔ وہ پھر بولا مگر متحدہ کی تنظیمی قوت کو تو آپ بھی مانتے ہیں ناں؟ ایک حکم پر ہزاروں لوگ جمع ہوجاتے ہیں ایک دن میں سارے شہر کو بینروں اور پوسٹروں سے کوئی اور جماعت بھر کر تو دکھائے؟ وہ اپنی دلیل کی مضبوطی پر اطمینان سے مسکرایا اور میری طرف جو اب طلب نظروں سے دیکھنے لگا! میں نے ایک بار پھر اعتراف کیا بالکل درست متحدہ ایسی ہی قوت رکھتی ہے ،وہ پورے شہرکو لمحوں میں ہلا کر رکھ دینے یا پر سکون کردینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہی، مگر مجھے بتائیے کہ سیاسی تنظیم اور مافیا کی تنظیم میں کوئی فرق ہوتا ہے یا نہیں؟ وہ میری طرف متوجہ تھا، میں نے با ت آگے بڑھائی ،سیاسی جماعت اخلاقی ضابطوں کی بنیاد پر کارکن بناتی اور ان سے کام لیتی ہے ، مافیا حکم کی بنیاد پر، سیاسی جماعتوں کا کارکن بات مانتا بھی ہے اور انکار بھی کر دیتا ہے ، مافیا میں انکار کاتصور نہیں ، سیاسی جماعتوں کی قیادت مصنوعی ہی سہی مگر انتخابات سے منتخب ہوتی ہے ، جب کہ مافیا میں طاقت کی بنیاد پر قائد بن جایا کرتا ہے ۔،سیاسی قوتیں مشوروں کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں اور مافیا میں قائد سے غدار ی موت کی حقداری قرار پاتی ہے ،سیاسی قوتیں عموماً محبت کی بنیاد پر پروان چڑھتی ہیں،مافیا خوف کی بنیاد پر ،ایک کے لوگ رضاکارانہ کام کے عادی ہوتے ہیں اور دوسرے کے اجرتی ! یہی وجوہات ہیں کہ سیاسی تنظیمیں نہ تو گھنٹوں میں اپنی تنظیم کو متحرک کرسکتی ہیں نہ ہی ان کو مافیا کی طرح استعمال کرسکتی ہیں، نہ اپنے کارکنوں کی عورتوں، بچوں کو غلام سمجھ کر ان سے اپنے احکامات منواسکتی ہیں نہ ہی ملازمتیں دے کر انسانوں کو زندگی بھر کے لیے خرید سکتی ہیں،بس یہی فرق ہے کسی سیاسی جماعت کی ” فطری تنظیم“اورایم کیو ایم کی ”غیر معمولی“ تنظیم میں ۔ اس نے کہا کہ چلو چھوڑو یہ بتاؤ ایم کیو ایم کو متوسط طبقے کی پارٹی تومانتے ہوناں؟ دیکھو ان کی ساری قیادت اور نگی کورنگی لیاقت آباد ، فیڈرل بی ایریا سے اٹھی ہے کوئی جاگیر دار نہیں ان کا فلسفہ ہی جاگیرداری کے خلاف ہے اور تو اور ڈاکٹر اسرار مرحوم صاحب نے ان کی جاگیردار ی مخالف سوچ کا اعتراف کیا ہے میں نے ایک بار پھر مسکرا کر اپنے ہمسفر کو دیکھا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا دور ایک کسان اپنی زمین پر ہل چلا رہا تھا میں نے اس کی طرف اشارہ کرکے اپنے ساتھی سے پوچھا جاگیردار اور وڈیرہ اس مظلوم کے ساتھ کیا ظلم کرتا ہے جس کی بنیاد پر تم اسے ظالم کہتے ہو ؟ اس نے کہا اس پر تشدد کرتا ہے اس کے پیسے لوٹتا ہے اپنے غنڈوں سے اس پر حملے کرواتا ہے ۔ اس کی نجی جیلیں ہوتی ہیں اس کا متوازی قانون اور عدالتیں ہیں میں نے کہا بالکل درست اور اگر یہی سب کچھ پینٹ شرٹ میں ملبوس کوئی شہری آدمی کرے تو ہم اسے شہری جاگیرداری کہتے ہیں ناں ؟ اس نے اتباع میں سر ہلا دیا میں نے اسے دعو ت دی کہ آپ ایک ہفتے کے لیے لائنز ایریا ، لیاقت آباد نمبر4 یا اورنگی کے کسی سیکٹر میں گزار لیں آپ کو ان شہری جاگیراروں کا ظلم بھی نظر آئے گا ان کے مسلح غنڈے بھی ان کی نجی جلیں اور سیکٹر و یونٹ کے نام پر ٹارچر سیل بھی ان کی مظلوموں سے لوٹ مار بھی اور وہ سب کچھ جس کی بنیاد پر ہم جاگیردار کو برا کہتے ہیں پھر آخر میں جاگیرداری کے خلاف اس لچھے دار تقریر سے متاثر ہو کر کیسے اپنے روز کے تجربے کو جھٹلا دوں ؟ اب میں نے بات خود ہی آگے بڑھانے کافیصلہ کیا میں نے کہا ایم کیو ایم بالکل درست ایشو پر بڑی مہارت کے ساتھ اسٹرٹیجک پلاننگ کے ”ماہرین “ کی تیار کردہ اسکیم کے عین مطابق وجود میں آئی اس نے مہینوں میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ ڈالے پھر جن خود اسے بوتل سے آزاد کرنے والوں کے قابو سے بھی نکل گیا اور اس نے اپنے خا لقوں کے آقاﺅں کی ڈائریکٹ ملازمت کرلی برسوں کی ٹھوکروں نے اسے سمجھا دیا کہ فائدہ صرف مقتدر قوتوں کی چاکری میں ہے سو اس نے پرویز مشرف جیسے آمر مطلق کا بھی ساتھ دیا اور اسٹبلشمنٹ کی غیر مشروط حمایت کی بنیاد پر اپنی نوکری پکی کروالی ۔ساتھ ہی پروپیگنڈ ا کی منظم قوت کو استعمال کرتے ہوئے زلزلے سے لیکر کراچی کی سٹی حکومت تک موقعہ کو اپنے مختلف حوالوں سے گندے چہرے کو صاف کرنے اور اپنا نیا امیج بنانے کے لیے کامیابی سے استعمال کرکے ملک کے سب سے بڑے میڈیا سینٹر کراچی کے ذرائع ابلاغ کو خوف اور لالچ سے کنڑول میں لے کر اپنے لئے استعمال کیا اور بتدریج شہر کی ساری سیاسی قوتوں کو مفلوج کرکے شہر کو یرغمال بنالیا کراچی کی مقامی آبادی کو ایم کیو ایم کی شکل میں شناخت اور تحفظ کا احساس تھا چنانچہ وہ ابھی تک اس اذیت ناک خواب سے نکلنے کو تیار نہیں اب ایم کیو ایم نے نہایت مہارت اور منصوبہ بندی سے ریاست کے اندر اپنی ریاست بنالی ہے اس کے پنجے ایک طرف بیورو کریسی میں بہت اندر تک پہنچ چکے ہیں دوسری طرف کمیونٹی پولیس کی شکل میں اس کے پاس ایک منظم قانونی قوت آچکی ہے ۔ جسے کسی بھی دن مسلح کئے جانے کا اعلان کردیا جائے گا۔دوسری طرف شہر میں سیکٹر اور یونٹ کی سطح پر مسلح تنظیم شہر کو لمحوں میں یرغمال بنالینے کی قوت حاصل کرکے کئی بار اس کا مظاہر ہ کرچکی ہے۔ شہر کو کس طرح کنٹرول کرنا ہے اس کے کئی متوازی منصوبے ایم کیو ایم کے پاس تیار موجود ہیں ( جن میں سے ایک کو وہ 12مئی کو کراچی کے پلوں کو کامیابی سے تخریبی مقاصد کے لئے استعمال کرچکی ہے ) اور یہ سب کچھ ایجنسیوں اور مقتدر قوتوں کے علم میں ہے مگر شاید وہ اس کے انتظار میں ہیں کہ متحدہ جب جناح پور کے قیام کا اعلان کرکے اگلے ہی لمحے شہر کو ملک سے کاٹ ڈالے گی اور اپنی برسوں کی جمع شدہ سیاسی اور فوجی اور پروپیگنڈ ا کی قوت کے بل پر امریکا اور بھارت کے مقاصد پورے کر گزرے گی تب محب وطن قوتوں کے پاس لکیر پیٹنے یا ایک ناکام لڑائی لڑنے کے سوا کچھ نہ ہو گا کاش ہم سمجھ سکیں کہ مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار: زبیر منصوری
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]