سنا ہے پاکستان کے زیادہ تر سیاست دانوں کو موسیقی کے سروں کی بیماری لگی تھی اور یہ بیماری اب تک لگی ہوئی ہے۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے ہم نے ایسی بیماری والے سیاست دانوں کو ’’موسیقار سیاست دان ‘‘ کا نام دیا ہے۔
موسیقار سیاست دان ویسے تو کسی کام کے نہیں سوائے ملک کو لوٹنے کے لیکن اندر اندر یہ سیاست دان تو سائنسدان اور موسیقاروں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے اور یوں سیاست دانوں نے موسیقی میں نئے سُر ایجاد کر دیئے۔ عام طور پر موسیقی کے 7 سُر سا، رے، گا، ما، پا، دا،نی ہوتے ہیں۔ دنیا دن بدن چھوٹی سے چھوٹی ٹیکنالوجی اور وقت بچانے کی طرف لگی ہوئی ہے اس لئے موسیقار سیاست دانوں نے سوچا کہ موسیقی کے نئے سُر اور تعداد کم کی جائے تاکہ وقت کی بچت کی جائے،اور یوں موسیقار سیاست دانوں نے موسیقی کے نئے سُر ایجاد کر ہی لئے۔ ان سُروں کے بارے میں عوام کو نہیں بتایا گیا تھا اور ابھی بھی نہیں بتایا جارہا البتہ اشاروں اشاروں میں بات سمجھانے کی کوشش ضرور کی گئی تھی اور ہے۔ سارے موسیقار سیاست دان اپنے زیادہ تر بیانات میں نئے سُروں کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم آپ کو بتاتے جائیں کہ یہ نئے سُر کون سے ہیں۔۔۔ پرانے سُروں کی تعداد میں کمی کر کے نئے سُر صرف تین بنائے گئے۔ جن کے نام ’’ گا، گی اور گے ‘‘ ہیں۔ ان سُروں کا تعلق کیونکہ مستقبل سے ہے اس لئے ان کے نام بھی مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے گا، گی، گے ہی رکھے گئے۔ موسیقار سیاست دانوں کا خیال ہے کہ اصل چیز ہی مستقبل ہے اس لئے ماضی اور حال بھاڑ میں جائیں صرف مستقبل کا ہی سوچا جائے۔۔۔
موسیقار سیاست دان ویسے تو کسی کام کے نہیں سوائے ملک کو لوٹنے کے لیکن اندر اندر یہ سیاست دان تو سائنسدان اور موسیقاروں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے اور یوں سیاست دانوں نے موسیقی میں نئے سُر ایجاد کر دیئے۔ عام طور پر موسیقی کے 7 سُر سا، رے، گا، ما، پا، دا،نی ہوتے ہیں۔ دنیا دن بدن چھوٹی سے چھوٹی ٹیکنالوجی اور وقت بچانے کی طرف لگی ہوئی ہے اس لئے موسیقار سیاست دانوں نے سوچا کہ موسیقی کے نئے سُر اور تعداد کم کی جائے تاکہ وقت کی بچت کی جائے،اور یوں موسیقار سیاست دانوں نے موسیقی کے نئے سُر ایجاد کر ہی لئے۔ ان سُروں کے بارے میں عوام کو نہیں بتایا گیا تھا اور ابھی بھی نہیں بتایا جارہا البتہ اشاروں اشاروں میں بات سمجھانے کی کوشش ضرور کی گئی تھی اور ہے۔ سارے موسیقار سیاست دان اپنے زیادہ تر بیانات میں نئے سُروں کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم آپ کو بتاتے جائیں کہ یہ نئے سُر کون سے ہیں۔۔۔ پرانے سُروں کی تعداد میں کمی کر کے نئے سُر صرف تین بنائے گئے۔ جن کے نام ’’ گا، گی اور گے ‘‘ ہیں۔ ان سُروں کا تعلق کیونکہ مستقبل سے ہے اس لئے ان کے نام بھی مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے گا، گی، گے ہی رکھے گئے۔ موسیقار سیاست دانوں کا خیال ہے کہ اصل چیز ہی مستقبل ہے اس لئے ماضی اور حال بھاڑ میں جائیں صرف مستقبل کا ہی سوچا جائے۔۔۔
اگر آپ اخبارات پڑھتے ہیں یا خبریں سنتے ہیں تو آپ کو بھی اندازہ ہو چکا ہو گا کہ موسیقار سیاست دان آج کل ان نئے سُروں کے دیوانے ہو چکے ہیں اور ہر بیان میں انہیں استعمال کر رہے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک موسیقار سیاست دان صاحب کہہ رہے تھے کہ “بجلی کے بحران پر جلد قابو پا لیا جائے گا ا ا ا ا ا ا ا ا”۔ ایک وزیر صاحبہ کہہ رہی تھیں کہ “میں پاکستان کو خوش حال کر دوں گی ی ی ی ی ی ی “۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ ہم “آٹے کی فراہمی یقینی بنا دیں گے ے ے ے ے ے”۔ اگر آپ تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو بھی ان سروں کی سمجھ آ جائے گی ی ی ی ی ی ۔۔۔ کہ یہ سُر کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔
میرے خیال میں شاید یہ کوئی پہلے موسیقار سیاست دان نہیں بلکہ ان سے پہلے بھی کئی گزر چکے ہیں جو اسی گا، گی، گے کی سرگم کرتے رہے ہیں اور عوام کو پاگل بناتے رہے ہیں۔۔۔ اور ایک ہماری بھولی اور سادہ عوام ہے جو بیچارے بڑی معصومیت سے دن رات محنت کرتے ہیں اور پھر فارغ اوقات میں گا، گی، گے کی سرگم سنتے ہیں۔۔۔
لیکن اب عوام کو اس سرگم کی اصل صورت کا خوب اندازہ ہونے لگا ہے۔۔۔ کیونکہ اس سرگم کی حقیقت آج تک نہیں ہو سکی۔ سب موسیقار سیاست دان یہی سرگم گا، گی، گے کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن آج تک یہ گا، گی اور گے آیا ہی نہیں۔عوام پہلے سے بھی زیادہ مشکلات میں زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن اگر موسیقار سیاست دانوں کی سرگم سنیں تو لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان سپر پاور بننے والا ہے۔ جبکہ ایسا کچھ ان کی باتوں سے تو نظر نہیں آرہا۔۔۔ہاں کسی اور ذات پر امید ہے کہ ہی ہماری نیا پار لگائے گااور ہم دنیا میں دوبارہ حکمرانی کریں گے۔(ان شاء اللہ)
مضمون نگار : محمد بلال۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]