بچپن میں بڑوں سے سنتے تھے محنت کرو ، کہ محنت سے ہی انسان بڑا آدمی بنتا ہے ، اور ہم سوچتے تھے کہ یہ بڑے پتہ نہیں کتنی محنت سے اتنے بڑے ہوئے ہیں ، جب ہم تھوڑے بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ نہ جی نہ بڑا آدمی بننا تو کچھ اور ہی معنیٰ رکھتا ہے ، اور بڑے لوگ تو “ہمارے“ بڑوں جیسے نہیں ہوتے ، بلکہ واقعی ہی بڑے ہوتے ہیں ، اور بڑا ہونا کچھ اور مطلب رکھتا ہے ۔ ۔ پھر ہم نے بڑے لوگوں کے بارے میں جاننا شروع کیا ۔۔ تو پتہ چلا کہ سارے بڑے آدمی تو اس دنیا میں نہیں ہیں ۔ ۔ بھائی کتابوں میں جو لکھا ہے اس پر کیسے یقین کر لیں ؟ سو اسکول کے زمانے سے ہی پلان کر لیا کہ کیا ہوا کہ بڑے آدمی مر چکے ہیں ہم تو زندہ ہیں ہم بنیں گے بڑے آدمی ۔ ۔ ۔ اور پھر ایک دن جب ہم کالج سے گھر پہنچے توپتہ چلا ہماری ایک دور کی رشتے کی خالہ آئیں ۔ ۔ وہ ہمیں دیکھتے ہی بولیں ۔ ۔ بیٹا ۔ ۔ تم کتنے بڑے ہو گئے ہو ۔ ۔ ہمیں تب پتہ چلا کہ چلو ہم بھی کچھ بڑے ہو گئے ہیں ۔۔ یعنی ہمارے بڑا آدمی بننے کا پراسس شروع ہو چکا ہے۔
اب یہ سوچا کہ چلو خاندان والے تو مان چکے ہیں کہ ہم بڑے ہو رہے ہیں مگر دنیا کو کیسے بتائیں ۔ ۔ ۔ ہم نے جتنے بڑے لوگوں کے بارے میں پڑھا یا سنا تھا وہ سب سے پہلے کہیں نہ کہیں تقریر ضرور کرتے تھے ، ہم نے بھی تقریر کرنے کی ٹھانی مگر کہاں ، سوچا کہ کسی فری پیریڈ میں کلاس کے سامنے کچھ بول دیں گے ، ویسے بھی ہمارے کالج کی غیر نصابی سرگرمیاں ، طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے معطل تھیں ، مگر موضوع کیا ہو گا ۔ ۔بہت سوچا، ہاں بڑا آدمی کیسے بنا جائے ۔ ۔ مگر پھر سوچا کہ اگر ہم نے سارے گُر کلاس کو بتا دیے تو سب بڑے بن جائیں گے ہماری جگہ کہاں ہو گی ۔۔ کیا مشکل ہے ۔ ۔ ہاں ۔ ۔ ایک ٹاپک سمجھ میں آیا ۔ ۔ ۔ میں بڑاآدمی ہوں ۔ ۔ ۔ یہ ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ چلو کچھ لوگ تو ہمارے دعوے کو مانیں گے کم سے کم اپنے گروپ کے جنہیں اکثر ہم اپنی جیب سے کنٹین میں ناشتے سے ڈنر تک کرواتے ہیں کچھ تو مانیں گے ۔ ۔ ۔اور باقی جنہوں نے نہیں مانا ، ۔ ۔ ۔ بھئی سارے بڑے لوگوں سب لوگ تو نہیں مانتے تھے نا ۔ ۔ ۔
تو پھر ایک دن ہم کھڑے ہو ہی گئے کلاس میں ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے تو کچھ ٹانگیں کپکپائیں مگر سنبھل گئے ، دد دد۔۔۔۔ دو ۔ ۔ ۔ دوستو ۔ ۔ پتہ نہیں آواز شاید گلے میں پھنس گئی ۔ ۔ ۔ مم یم مم ۔ ۔ ۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ۔ ۔ ۔ مم مم مم میں میں ۔ ۔ ۔ مم ۔ ۔ میں بب بب بڑا آدمی بب بن گیا ہوں ۔ ۔ ۔ ساری کلاس اب ہماری طرف متوجہ تھی ۔ ۔ ۔ شاید کسی کو ہم سے ان الفاظ کی توقع نہیں تھی ۔ ۔ ۔ سب سے پہلے اقبال نے ہی اٹھ کر کہا ۔ ۔ ۔ اچھا ۔ ۔ تو ۔ ۔ ۔ کک کک کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ بس اتنا ہی کہنا تھا ۔ ۔ ۔
اور پھر وہ دن اور آج کا دن ۔ ۔ ۔ ہم نے بڑا آدمی بننے کا فیصلہ ترک کر دیا ۔ ۔ شاید ۔ ۔ ہمیں مرنے سے ڈر لگتا ہے ۔ ۔
مضمون نویس: اظہر الحق
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]