(تخت باھی ، مردان)
بدھ مت کے کھنڈرات مردا ن کے تاریخی شہر تخت باھی(تخت بھائی) میں ہے۔ یہ شہر مالاکنڈ پر ضلعی صدر مقام مردان سے ۱۳کلو میٹر شمال کی جانب آباد ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تین سو سال قبل مسیح میں راجہ اشوک نے بدھ مت کی تبلیغ و اشاعت کیلئے یہاں ایک خانقاہ کی بنیاد رکھی۔پھر پانچویں صدی عیسوی تک وقتاً فوقتاً یہاں تعمیر و توسیع کا کام ہوتا رہا۔اس کے بعد زوال کے آثار شروع ہوئےاور چھٹی صدی عیسوی میں اس کا خاتمہ ہوا۔
تخت باھی کے کھنڈرات، مالاکنڈ روڈ سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر۵۰۰فٹ کی اونچائی پر شرقاًغرباًپھیلے ہوئے ہیں۔تخت باھی کے کھنڈرات کو پاکستان میں پائے جانے والے کھنڈرات میں نمایا مقام حاصل ہے۔تخت باھی کے نام کو دو الفاظ سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔ان سے مرادہموار جگہ پر چشمہ یاکنواں کے ہے ۔دوکنوویں کے کھنڈرات غربی کی جانب پہاڑ کی چوٹی پر ابھی تک موجود ہے۔اور مقامی آبادی ابھی تک اس سے مستفید ہورہی ہے۔لہٰذا خیال کیا جاتا ہے کہ ان کنوئوں کی بدولت اس جگہ کو تخت باھی کہا جانے لگا۔تخت باھی کے کھڈرات ۶۵۰ کنال رقبہ پر محیط ہے۔سطح سمندر سے۱۸۰۰فٹ بلندی پر واقع ہے۔اور دوسری قبل مسیح سے پانچویں صدی عیسوی کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔پہلی مرتبہ ان کھنڈرات کا ذکر ۱۸۳۶ میں جنرل کورٹ کیااور پہلی باقاعدہ کھدائیDr.D.B.Spoonerنے ۱۹۰۷ تا ۱۹۰۹ اور Mr.Hargreavesنے ۱۹۱۰ تا ۱۹۱۱تک کی۔کھدائی کے دوران کافی تعداد میں پتھر،چونے کے بت ،سکے ،کتبے اور مختلف اشیاء دریافت ہوئیں ۔ جن سے بدھ مت کی مکمل تاریخ کا پتہ چلتا ہےان میں سے کچھ نوادرات پشاور عجائب گھر میں دیکھنے کیلئے رکھی گئی ہیں۔تخت باھی کے کھنڈرات جن عمارات پر مشتمل ہے ان میں چھوٹے اسٹوپے، بڑے اسٹوپے،بت رکھنے کیلئے کمرے مراقبہ کیلئے تاریک تہہ خانے ،خانقاہ، دیوان عام،باورچی خانہ،طعام گاہ،کئی منزلہ رہائشی اور غیر رہائشی عمارتیں اور زیر زمین گزر اگاہیں قابل ذکر ہیں ۔ان کھنڈرات کے تاریخی ،مذہبی اور نمایاں فن تعمیر کی بدولت عالمی ادارہ برائے تعلیم ، سائنس و ثقافت نے اس کو عالمی ورثہ قرار دیا ہے ۔ بدھ مت کے اس آثار قدیمہ کا شمار دنیا کے اہم ترین آثار قدیمہ میں ہوتاہے۔
صاحب تحریر زیر زمین گزرگاہ کی نشاندھی کرتے ہوئے۔
مضمون نگار: عبد الستار _(کشف جی )
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]