’’جیسے ویتنام جیتا ویسے ہم بھی جیتیں گی!“ یہ نعرہ بازی کے نمائشی الفاظ کسی سنجیدہ سیاستداں یا عظیم و مجاہد کے نہیں بلکہ اس شخص کے ہیں جو دشمن کے سامنے ذلت‘ پستی‘ کمزوری اور مفت میں دستبرداری کے لیے ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
اس جوشیلے نعرے کے ساتھ اگرچہ محمود عباس نے اپنا ویتنام کا دورہ شروع کیا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے قول کی حقیقت نہیں سمجھ رہے تھے ‘ اور اگر سمجھ رہے تھے تو پھر انہوں نے اس کو یاد کیا نہ حاضرین کو بتایا کہ ویتنامی کیسے جیتے؟ اور اگر ان کو یاد نہ آیا ہوا تو ہم ایک سادہ سے تقابل کے ساتھ ان کے سامنے ویتنامی انقلاب کی حقیقت پیش کرتے ہیں کہ وہ کیسے دنیا کی جابر ترین حکومت پر غالب آئی؟ شاید کہ اس سے وہ تاریخ کا صحیح مطالعہ کرنا سیکھیں اور ماضی کے اسباق سے اقوام کی فتح اور قابض دشمن کی شک کے لیے درس و عبرت حاصل کریں۔ ویتنامی قوم نے پورے دس برس (1975-1965) امریکی فوج سے سخت ترین جنگ کی اور اس دوران دو ملین کے قریب مقتولین اور بارہ ملین زخمی آزادی کی نذر کیے ان کے علاوہ پورے پورے شہر اور محلے تباہ ہوئے مگر ویتنامی نہ تھکے‘ نہ اکتائے‘ نہ گھبرائے نہ امریکی غرور و تکبر کے سامنے طاقت کے عدم توازن کے نام پر سرجھکایا یا مسلمات سے دستبردار ہوئے جیسے کہ تنظیم آزادی فلسطین نے دو تہائی فلسطینی زمین چھوڑنے پر دستخط کرکے دشمن کے سامنے اپنی عاجزی وبے بسی ظاہر کی! ویتنامیوں نے اپنے مقتولین و مجروحین اور تباہ شدہ مکانات‘ محلوں‘ شہروں اور فصلوں کی بڑی تعداد کے باوجود امریکیوں کے ساتھ جاری جنگ میں اپنی فتح کا اعلان کیا اور کبھی بھی جنگ میں اپنی قوم کے صبر و استقلال ‘ مزاحمت اور قربانیوں کو محمود عباس کی طرح بے قیمت نہیں جانا۔ ویتنامی انقلاب کے رہنماﺅں نے محمود عباس کی طرح کبھی بھی اپنی قوم کی مزاحمت کو جرم نہیں ٹھہرایا‘ نہ انقلابیوں کے حملوں کو حقیر بتایا‘ اسی طرح انہوں نے امریکیوں سے تعاون کرنے والے کے ساتھ سخت ترین معاملہ کیا اور اس کے خلاف آخری درجہ کی سزائیں نافذ کیں انہوں نے کبھی محمود عباس کی طرح اندرونی امن و امان کے معاملہ میں دشمنوں سے سمجھوتا نہیں کیا۔ ویتنامی انقلابیوں نے امریکی فوج کے خلاف مزاحمت کی اور اس کو اپنی مسلح مزاحمت اور فدائی حملوں (یہ کمانڈو حملے ویتنامیوں نے بھی استعمال کیے تھی)کے بل پر اپنی زمین سے نکالا‘ اس کے 57 ہزار سے زیادہ فوجی قتل اور ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ فوجی زخمی کیے جب کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیرمنتخب صدر محمود عباس صہیونی فوج کو فلسطینی زمین سے اپنے خاص طریقہ اور آرام سے کندھا ہلاتے ہوئے‘ قندیلوں کی روشنی میں ایک منٹ کی خاموشی سے کھڑے ہوکر ”پرامن مزاحمت“ (جس میں پتھر کنکر پھینکنا بھی جرم ہے) کے وسیلہ سے کانٹے نکال کر گلاب کے پھول نچھاور کرتے ہوئے نکالیں گے تاکہ کہیں کسی صہیونی فوجی کو تکلیف نہ ہوجائے۔ ویتنامیوں نے امریکا کے ساتھ جنگ میں اس کے 500 فوجیوں اور شہریوں کو قیدی بنایا اور ان کو ویتنامی قیدیوں سے تبادلے کے بغیر نہیں چھوڑا جب کہ محمود عباس کی نام نہاد اتھارٹی نے ہر طرف اپنے جاسوس اکلوتے صہیونی قیدی جلعاد شالیط کی تلاش میں لگارکھے ہیں تاکہ اس کو کسی طرح حاصل کرکے مفت میں صہیونیوں کے سپرد کرکے دشمنوں میں سرخرو ہوا جائے۔ اسی طرح اتھارٹی کے مغربی کنارہ میں اس کے آدمی سیاحتی گائیڈ بن کر بھولے بھٹکے یہودی آبادکاروں کو ان کے اڈوں اور آبادیوں میں پہنچاتے ہیں۔ ویتنامی انقلاب کے رہنما امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر اس حال میں بیٹھے کہ ان کے پیچھے فعال مزاحمت کی طاقت تھی‘ انہوں نے انقلابیوں کے ہاتھوں سے نہ ہتھیار رکھوائے‘ نہ ان کو جیلوں میں ڈالا‘ نہ ان کو امریکی دشمن کے حوالے کیا جیسا کہ محمود عباس کی اتھارٹی اپنے فلسطینی مجاہدین کے ساتھ کررہی ہے اسی وجہ سے یہ اتھارٹی مذاکرات کی میز پر ہر طرح کی اندرونی طاقت سے عاری ہوکر بیٹھتی ہے۔ فلسطینی مذاکرات کاروں کی مذاکرات کی میز پر دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے اس حالت میں لے جایا گیا کہ اس کے پاس صہیونیوں کے خلاف دباﺅ کے کوئی کارڈ نہیں تھے‘ ظالموں نے خیال کیا کہ صہیونیوں کے مندر پر بھینٹ چڑھانے کے لیے مزاحمت کی گرفتاری اور ان کے ہتھیاروں کی ضبطی اچھا نذرانہ ہوگی۔
اس جوشیلے نعرے کے ساتھ اگرچہ محمود عباس نے اپنا ویتنام کا دورہ شروع کیا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے قول کی حقیقت نہیں سمجھ رہے تھے ‘ اور اگر سمجھ رہے تھے تو پھر انہوں نے اس کو یاد کیا نہ حاضرین کو بتایا کہ ویتنامی کیسے جیتے؟ اور اگر ان کو یاد نہ آیا ہوا تو ہم ایک سادہ سے تقابل کے ساتھ ان کے سامنے ویتنامی انقلاب کی حقیقت پیش کرتے ہیں کہ وہ کیسے دنیا کی جابر ترین حکومت پر غالب آئی؟ شاید کہ اس سے وہ تاریخ کا صحیح مطالعہ کرنا سیکھیں اور ماضی کے اسباق سے اقوام کی فتح اور قابض دشمن کی شک کے لیے درس و عبرت حاصل کریں۔ ویتنامی قوم نے پورے دس برس (1975-1965) امریکی فوج سے سخت ترین جنگ کی اور اس دوران دو ملین کے قریب مقتولین اور بارہ ملین زخمی آزادی کی نذر کیے ان کے علاوہ پورے پورے شہر اور محلے تباہ ہوئے مگر ویتنامی نہ تھکے‘ نہ اکتائے‘ نہ گھبرائے نہ امریکی غرور و تکبر کے سامنے طاقت کے عدم توازن کے نام پر سرجھکایا یا مسلمات سے دستبردار ہوئے جیسے کہ تنظیم آزادی فلسطین نے دو تہائی فلسطینی زمین چھوڑنے پر دستخط کرکے دشمن کے سامنے اپنی عاجزی وبے بسی ظاہر کی! ویتنامیوں نے اپنے مقتولین و مجروحین اور تباہ شدہ مکانات‘ محلوں‘ شہروں اور فصلوں کی بڑی تعداد کے باوجود امریکیوں کے ساتھ جاری جنگ میں اپنی فتح کا اعلان کیا اور کبھی بھی جنگ میں اپنی قوم کے صبر و استقلال ‘ مزاحمت اور قربانیوں کو محمود عباس کی طرح بے قیمت نہیں جانا۔ ویتنامی انقلاب کے رہنماﺅں نے محمود عباس کی طرح کبھی بھی اپنی قوم کی مزاحمت کو جرم نہیں ٹھہرایا‘ نہ انقلابیوں کے حملوں کو حقیر بتایا‘ اسی طرح انہوں نے امریکیوں سے تعاون کرنے والے کے ساتھ سخت ترین معاملہ کیا اور اس کے خلاف آخری درجہ کی سزائیں نافذ کیں انہوں نے کبھی محمود عباس کی طرح اندرونی امن و امان کے معاملہ میں دشمنوں سے سمجھوتا نہیں کیا۔ ویتنامی انقلابیوں نے امریکی فوج کے خلاف مزاحمت کی اور اس کو اپنی مسلح مزاحمت اور فدائی حملوں (یہ کمانڈو حملے ویتنامیوں نے بھی استعمال کیے تھی)کے بل پر اپنی زمین سے نکالا‘ اس کے 57 ہزار سے زیادہ فوجی قتل اور ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ فوجی زخمی کیے جب کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیرمنتخب صدر محمود عباس صہیونی فوج کو فلسطینی زمین سے اپنے خاص طریقہ اور آرام سے کندھا ہلاتے ہوئے‘ قندیلوں کی روشنی میں ایک منٹ کی خاموشی سے کھڑے ہوکر ”پرامن مزاحمت“ (جس میں پتھر کنکر پھینکنا بھی جرم ہے) کے وسیلہ سے کانٹے نکال کر گلاب کے پھول نچھاور کرتے ہوئے نکالیں گے تاکہ کہیں کسی صہیونی فوجی کو تکلیف نہ ہوجائے۔ ویتنامیوں نے امریکا کے ساتھ جنگ میں اس کے 500 فوجیوں اور شہریوں کو قیدی بنایا اور ان کو ویتنامی قیدیوں سے تبادلے کے بغیر نہیں چھوڑا جب کہ محمود عباس کی نام نہاد اتھارٹی نے ہر طرف اپنے جاسوس اکلوتے صہیونی قیدی جلعاد شالیط کی تلاش میں لگارکھے ہیں تاکہ اس کو کسی طرح حاصل کرکے مفت میں صہیونیوں کے سپرد کرکے دشمنوں میں سرخرو ہوا جائے۔ اسی طرح اتھارٹی کے مغربی کنارہ میں اس کے آدمی سیاحتی گائیڈ بن کر بھولے بھٹکے یہودی آبادکاروں کو ان کے اڈوں اور آبادیوں میں پہنچاتے ہیں۔ ویتنامی انقلاب کے رہنما امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر اس حال میں بیٹھے کہ ان کے پیچھے فعال مزاحمت کی طاقت تھی‘ انہوں نے انقلابیوں کے ہاتھوں سے نہ ہتھیار رکھوائے‘ نہ ان کو جیلوں میں ڈالا‘ نہ ان کو امریکی دشمن کے حوالے کیا جیسا کہ محمود عباس کی اتھارٹی اپنے فلسطینی مجاہدین کے ساتھ کررہی ہے اسی وجہ سے یہ اتھارٹی مذاکرات کی میز پر ہر طرح کی اندرونی طاقت سے عاری ہوکر بیٹھتی ہے۔ فلسطینی مذاکرات کاروں کی مذاکرات کی میز پر دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے اس حالت میں لے جایا گیا کہ اس کے پاس صہیونیوں کے خلاف دباﺅ کے کوئی کارڈ نہیں تھے‘ ظالموں نے خیال کیا کہ صہیونیوں کے مندر پر بھینٹ چڑھانے کے لیے مزاحمت کی گرفتاری اور ان کے ہتھیاروں کی ضبطی اچھا نذرانہ ہوگی۔
بشکریہ : ہفت روزہ’’ الامان‘‘ بیروت۔
ادارہ’’سنپ‘‘ الامان کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔تعاون جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]