آج کل سکھوں کے لطیفوں کی جگہ امریکیوں اور برطانویوں کے بیانات نے لے لی ہے۔ ابھی پچھلے دِنوں برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براوؤن ہمارے یہاں آئے تو بڑے Red,Yellow ہوئے۔ (شاید لال پیلے ہوہوکر ہی Brownہوگئے ہوں گے۔) فرمانے لگی: ”لندن کا امن پاک افغان سرحد پرامن سے منسلک ہے“۔ پس ثابت ہواکہ پاک افغان سرحد پر جو ڈرون حملے برس رہے ہیں‘ وہ فقط لندن میں امن برقرار رکھنے کے لیے برس رہے ہیں۔ اگرکبھی پاکستانی فوج نے غلطی سے بھی ان حملوں کو پسپا کردیا تو لندن میں پھرسے میگنا کارٹا سے پہلے کی صورتِ حال پیداہوجائے گی۔ ہرگلی میں ڈاکووؤں اور لٹیروں کاراج ہوگا۔ چند شلنگ کی خاطر لوگ قتل کیے جارہے ہوں گے۔ کاوؤنٹ اور اَرل گھوڑے گاڑیوں سے باندھ باندھ کر زمین پر گھسیٹے جارہے ہوں گے۔اور ہرعورت سڑکوں اور بازاروں میں فرزندانِ تہذیب کی ہوسناکیوں کا شکار ہوہوکر فٹ پاتھوں پر پڑی کراہ رہی ہوگی۔ ہم بہت دنوں سے لندن نہیں گئے ۔ کیا عجب کہ آج کل بھی وہاں کا یہی نقشہ ہو‘ جس کے خاتمہ کے لیے پاک افغان سرحدپر امن لانے کی غرض سے مٹی کے کچے گھروں میں اور سات پردوں میں رہنے والی خواتین اپنے شیرخواروں سمیت میزائل مار مار کر شہید کی جارہی ہیں۔ لندن کی سڑکوں کی تو کوئی وِڈیو بھی ہمارے آزاد ذرائع اِبلاغ کے چینلوں پر ایک دِن میں سترہزاربارنشر نہیں ہوپاتی۔ پتا چلے توکیسے چلی؟
٭٭٭ ایک تازہ ترین اطلاع کے مطابق ایک امریکی خبررساں اِدارے‘ آئی این پی‘ نے امریکی فوج اور امریکی ادارہ انسدادِ دہشت گردی کے حکام کے حوالے دے دیکر یہ انکشاف کیا ہے کہ: ”عسکریت پسند اب پاک افغان سرحد سے افریقہ منتقل ہورہے ہیں۔ لہٰذا صومالیہ اگلا افغانستان بن سکتاہے“۔ بس انتظارفرمائیے۔ کچھ دِنوں کے بعد کسی کا یہ بیان بھی آجائے گا کہ ’’واشنگٹن کا امن صومالیہ کے امن سے وابستہ ہے“۔ چناں چہ کچھ دنوں کے بعد صومالیہ جیسے غریب اورکمزور (مگر مسلمان) ملک پربھی بھارت کی زبان میں ”بم ورشا“ یا بم برکھا کردی جائے گی۔ تاکہ واشنگٹن کا امن برقراررہے۔صومالیہ میں قالینی بمباری نہ کی جائے تو شکاگو‘ سان فرانسسکو‘ واشنگٹن ڈی سی اور نیویارک کی گلیوں میں”کیاوؤس“ پیداہوجائے گا۔ کاوؤبوائے دندنا نے لگیں گے۔ قمار خانوں‘ قحبہ خانوں ‘ شراب خانوں اوررقص گاہوں میں بات بات پر قتل وغارت عام ہوجائے گی۔ سڑکوں پر خون کے دریا بہنے لگیں گے‘ جن میں پاوؤں چپڑچپڑ کر چپک جائیں گے۔ ریڈانڈین سردارسروں پر اپنے ہی رنگارنگ بالوں کی کلغی جمائے سفید نسل کی” مہذب“ مردوزن کو نیزوں کی نوک پر اپنے ساتھ ننگاناچ نچارہے ہوں گے‘ جوکہ یہ جملہ جفا پیشگانِ مہذب اپنے کو آپ کو حاصل حقوقِ انسانی کے تحت پہلے ہی ننگے کلبوں میں ناچ لیاکرتے تھے۔ ننگا ناچنے کی مشق اگر پہلے سے ہوتو بعد میں نچانے والوں کو زیادہ کدوکاوش نہیں کرنی پڑتی۔
٭٭٭ ایک اور برطانوی شہری مسمیٰ الطاف حسین المعروف بہ قائدِ تحریک وپیرصاحب وغیرہ وغیرہ نے ”پنجاب کے محب وطن عوام“ سے ”پاکستان بچانے کی بھیک “ مانگ لی ہے۔بھیک مانگتے ہوئے فرمایاہے کہ: ”اگر طالبانائزیشن کو نہ روکا گیا تو پاکستان دُنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا“۔ ہم حیران تھے کہ ایک برطانوی شہری بھلا بھیک مانگنے کی نوبت تک کیسے جاپہنچا؟ خان معاذاﷲ خان نے سمجھایا: ”بھائی اپنی خاطر بھیک نہیں مانگ رہے ہیں۔وہ تو امریکا اور برطانیہ جیسے سپرپاور یتامیٰ اور مساکین کی خاطر بھیک مانگ رہے ہیں“۔ قائدِتحریک کو دُنیاکے نقشے سے پاکستان کے مٹ جانے پر اتناایمان اور ایسا”حقّ الیقین“تھا کہ وہ اپنی دانشمندی ودُوراندیشی کے باعث بہت پہلے ہی ایسی مملکت میں پناہ گزیں ہوگئے جودُنیا کے نقشے پر پکی سیاہی سے ثبت ہے۔ اتنی پکی سیاہی سے کہ اُس کے مٹنے کا کبھی کوئی اندیشہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قائدِ تحریک کے پناہ دہندوں سے کوئی نہیں کہتاکہ فسادیوں کو پناہ دینے کاانجام: نہ سمجھو گے تو مِٹ جاوؤگے اے” انگلستاں“ والو! تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں مگرپنجاب کے محب وطن عوام کوتو ہم نے خود جھوم جھوم کر قرآن کے سیپارے پڑھتے دیکھا ہے۔ اُنہیں تو ابھی تک قائدِ تحریک کی طرح امریکنا ئزیشن اور برطانائزیشن کی ہوا بھی نہیں لگی۔ پنجاب کے محب وطن عوام ابھی تک خود بھی اچھے خاصے طالبانِ قرآن ہیں۔ وہ بھلا طالبانائزیشن کو کیا روکیں گی؟
٭٭٭ مذکورہ برطانوی شہری مسمیٰ الطاف حسین المعروف بہ قائدِ تحریک وپیرصاحب وغیرہ وغیرہ نے ”پنجاب کے محب وطن عوام“ سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ: ”پنجاب کے عوام چاہے الطاف حسین کو اپنا لیڈر نہ مانیں‘ لیکن پاکستان بچانے کے لیے میدان میں آجائیں“۔ ممکن ہے کہ پنجاب کے محب وطن عوام پاکستان بچانے کے لیے اب تک بس اسی اپیل کے انتطار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ہوں۔ مگر یہ اپیل آجانے کے بعد بھی تو وہ مٹی کے مادھو بنے اپنی مسجدوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہیں معلوم کہ یہ کیسے محب وطن عوام ہیں جو طالبانائزیشن کو”رُکواکر“ پاکستان بچانے کی بجائے‘ سات سمندر پار سے آنے والے جارح حملہ آوروں کی امریکنائزیشن اور برطانائزیشن ہی کو اپنی (پنجابی) گالیوں کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ پس اگرپنجاب کے محب وطن عوام نے بربنائے حب الوطنی امریکنائزیشن اوربرطانائزیشن ہی کو روکے رکھا اور طالبانائزیشن کو نہ روکا‘ اس پر مستزاد یہ کہ الطاف حسین کو اپنا لیڈر بھی نہیں مانا تو ہم پہلے سے متنبہ کیے دیتے ہیں کہ پھر مذکورہ برطانوی شہری بھی ‘ پاکستان پر ہونے والے امریکا‘ برطانیہ اور ناٹوافواج کے حملوں کو ”نہ رُکواکر“ پاکستان کو دُنیا کے نقشے سے مِٹوا چھوڑیں گے۔ اوراے اہلِ پنجاب.... پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ کیوں کہ انہوں نے عالمی مساکین ومستحقین کی خاطر بھیک مانگتے ہوئے یہ دھمکی دے ڈالی ہے کہ: ”اگر طالبانائزیشن کو نہ روکا گیا تو پاکستان دُنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا“۔ ڈرو اُس وقت سے کہ جب وہ دُنیا کے نقشے پرسے پاکستان کو مٹواکربس ایک سادہ سی خالی جگہ چھڑوادیں گے۔ جس سے دُنیا کا نقشہ چھاپنے اور گلوب بنانے والوں کو اچھا خاصانقصان ہوجائے گا۔نتیجہ یہ نکلے گا کہ قائدِ تحریک کی بجائے نقشے اور گلوب بنانے والے بھیک مانگتے پھریں گے۔
مضمون نویس: ابو نثر
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]