کالی مرچ ہمارے پسندیدہ اور مزیدار کھانوں میں اکثر استعمال ہوتی ہے شاید آپ کو یہ معلوم ہو کہ یہ کہاں سے آتی ہے اور کس طرح پیدا ہوتی اور تیار کی جاتی ہے لیکن کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہےکہ اس مسالے کی کشش یورپی قوموں کو انڈیا کھنیچ کر لائی تھی اور بالاخر وہ ہمارے حاکم بن بیٹھے تھے؟
کالی مرچ کا مقام پیدائش انڈیا میں ’’کیرلا‘‘ کے علاقے میں ہے جہاں یہ درختوں پر چڑھی ایک بيل پر سبز بیری کی صورت میں لگتی ہے یہاں کے لوگ ہزاروں سالوں سے ان بیریوں کو چن کر ان سے مسالہ تیار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کئی صدیوں تک یورپ میں بیچنے اور اس سے بے شمار دولت کمانے والے صرف عرب تاجر تھے کیونکہ اس علاقے کا راستہ صرف وہی جانتے تھے اور وہ اپنے گاہکوں تک اس راز کو پہنچنے نہیں دے رہے تھے اور اوپر سے اس راز کو محفوظ رکھنے میں یورپی لوگوں کی بے بنیاد کہاوتیں بھی ان تاجروں کے لیے مدد گار ثابت ہو رہی تھیں۔ اس طرح انہیں اس مسالے کی تجارت پر مکمل تسلط حاصل تھا لیکن اس کے ختم ہونے کا وقت زیادہ دور نہیں تھا۔
اس مسالے کا یورپ میں استعمال رومن دور میں شروع ہوا تھا البتہ پندرہویں صدی عیسوی کے دوران یورپی امیر گھروں کے کھانوں کے علاوہ کالی مرچ کا استعمال ’’کالی موت‘‘ یا طاعون کے علاج کے لیے بھی شروع ہوگیا جس کے پھیلنے سے وہاں لوگ بڑی تعداد میں مر رہے تھے۔اس قیمتی مال کی سخت ضرورت اور شدید مانگ کی وجہ سے 8 جولائی 1497ءمیں پرتگال نے اپنے سب سے اعلیٰ سمندری جہازراں واسکو ڈَ گاما (Vasco da Gama) کو کالی مرچ کے مَنبع کو تلاش کرنے کی مہم پر روانہ کیا۔ ڈَ گاما کا فلاٹیلا مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے سمندری ہواؤں کی مدد سے افریقی ساحلوں کے کٹھن بحری راستے سے مئی 1498ءمیں انڈیا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس طرح اسے یورپ میں سب سے پہلے انڈیا تک سمندری راستہ تلاش کرنے کا مقام بھی حاصل ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ڈاگاما کےاس کارنامے سے پرتگال کا جیک پاٹ نکل آیا تھا۔
ڈَ گاما انڈیا پہنچنے سے پہلے یہاں بے دین جنگلی وحشی دیکھنے کی امید لگائے بیٹھا تھا جو بيکار یورپی اشیاء کے بدلے اپنا ’’کالا سونا‘‘ بخوشی اس کے حوالے کر دیں گے۔ جب ڈیگاما کیرلا کے شہر کوچی(Kochi) پہنچا تو اس کے بالکل برعکس لوگوں کو Sophisticated اور بہت دولت مند پایا۔ دور دور سے عرب، چینی اور کئی دوسرے تاجر صدیوں سے اس ہر دیسی یا Cosmopolitan مرکز پر تجارت کے لیے آ رہے تھے۔ پندرہویں صدی میں کیرلا کے لیے کالی مرچ وہی مالی مقام رکھتی تھی جو آج کل گلف کی ریاستوں کے لیے تیل رکھتا ہے۔
ڈَ گاما کے کیرلا میں آنے کے آٹھ سال کے اندر ہی پرتگال نے اس علاقے میں اپنے قدم اچھی طرح سے جما لیے تھے۔ انہوں یہاں ایک قعلہ بھی تعمیر کر لیا تھا جہاں انہوں نے انڈیا میں اپنے پہلے وائسرائے کو قیام دیا۔ سولہویں صدی کے آغاز سے پہلے ہی پرتگالی مسالوں کی تجارت میں سب سے آگے نکل چکےتھے اور جو مال وہ تجارت سے حاصل نہیں کر سکتے تھے، اپنی طاقت سے چھین لیتے تھے۔ کالی مرچ کی خاطر پرتگال نے انڈیا کے مسالے والےساحلی علاقوں کو اپنے محاصرہ میں لےلیا تھا ۔
ایک مرتبہ جب انہیں یہ یقین ہو گیا کہ انڈیا میں کالی مرچ کی تجارت اب ان کے مکمل قابو میں ہے تو انہوں نے اپنی توجہ دوسرے مسالوں کو ڈھونڈنے کی طرف کر دی۔ ان کی تلاش کے لیے اگلا مسالہ’’ دار چینی‘‘ تھا جو سولہویں صدی کے یورپی امیر لوگوں میں بے حد مقبول تھا۔ یہ کالی مرچ سے بھی زیادہ نایاب تھا اور اس کا منبع بھی ان کے لیے نامعلوم تھا۔کیرلا کے آس پاس کے سمندر میں عرب تجارتی جہازوں پرمسلسل چھاپوں میں انہیں بار بار ان پر لدے مال میں ’’دار چینی‘‘ مل رہی تھی اس لیے انہیں شک تھا کہ یہ مسالہ کہیں آس پاس ہی پایا جاتا ہے ،لیکن کیرلا کے سمندر سے آگے کے علاقے سے وہ بالکل ناواقف تھے۔ 1506ءمیں پرتگالی ایک عربی جہاز کا پیچھا کرتے ہوے طوفان میں راستہ بھٹک گے اور انہوں ایک انجان ساحل پر پناہ لی۔ یہ سری لنکا کا ساحل تھا اور دار چینی یہاں ہی پائی جاتی تھی اور یوں انہیں دار چینی کا منبع بھی مل گیا۔
’’کالی مرچ‘‘ اور’’ دار چینی‘‘ جیسے مسالے دینا بھر میں کھانے کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیوں کے باعث بنے ہیں اور آج بھی مقبول ہیں لیکن ان کی تلاش نہ صرف ہماری تاریخ کا رخ بدلنے کا باعث بنی بلکہ اس نے جدید دنیا کی شکل بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ان مسالوں کی مدد سے شہنشاہی سلطنتیں بنیں اور ٹوٹیں، ان کی خاطر قوموں کی آزادی چھن گئی اور قتل و غارت میں بے شمار انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔
’’کالی مرچ ‘‘اور’’ دار چینی‘‘ دو معمولی سے مسالے اور ایک غیر معمولی ماضی کے مالک جن کی تلاش سے یورپی لوگوں کے دولت سے خزانے بھر گئے لیکن جن لوگوں نے انہیں اپنی محنت سے بنایا ان کو اور ان کی قوم کو اس کے بدلے میں کیا حاصل ہوا؟
تاریخ کے اوراق کی گردانی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یورپ و امریکا کی اکثر و بیشتر ایجادات کسی نہ کسی طرح سے ظلم و ستم کا شاخسانہ ہے ۔مغرب کی ایجادات کی بنیاد اکثر و بیشتر مظلوموں کے خون سے سینچی گئی ہیں ۔وہ وقت دور نہیں کہ جب مغرب اپنی ہی ایجادات کے بھو ل بھلیوں میں کھو کر واپسی کا راستہ ہی گنوا بیٹھی گی اور اپنے آپ اپنا خاتمہ کر بیٹھے گی۔