میرا پیغام محبت ، امن اور مساوات تمام انسانیت کے لیے ۔ منجانب "فرخ صدیقی"

لیلیٰ کی ٹویٹ، مجنوں کا بلاگ


مشورہ مفت ہے۔
عشق اور ٹیکنالوجی ایک صدا کا ساتھ ہے، کوئی ٹیکنالوجی سے عشق کرتا ہے تو دوسری طرف عُشاق کی ٹیکنالوجی پر دسترس کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں۔ گوکہ عشق حقیقی کے نصف شبی اظہار کے لیے بھی ٹیکنالوجی کا استعمال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اس تحدید سے چھیڑ چھاڑ ہمارا بنیادی مقصد نہیں؛ ہم محض عشق مجازی پر ٹیکنالوجی کے دور رس اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ عشاق ہر زمانے میں دستیاب ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے رہے ہیں، کبوتر میل ہو یا روپیہ رقعہ، سینہ ٹرانسفر ہو یا بصری اتصال برائے جذبات آپ عشاق کو ہمیشہ دو ہاتھ آگے ہی پائیں گے۔ موضوعِ بحث یہ قضیہ ہے کہ اگر کچھ ایجادات مناسب وقت پر کرلی جاتیں تو شاید کئی بن کھلے مرجھائے غنچوں کو کُھل کھلنے کا موقع میسر آتا اور ان کا  قیسوی، فرہادی اور رانجھوی سلسلہ ایک انتہائی الگ داستان محبت بیان کرتا نظر آتا۔
ایسا قطعا نہیں کہ داستانوں کی موجودہ صورت پر ہم کوئی اعتراض اٹھانے لگے ہیں یا مجنوں کی چھترول کی براہ راست متاثرہ آنسہ لیلی کے حق میں ترقی پسندوں کے کسی مظاہرے کا ارادہ ہے اور نہ ہی ہم فرہاد کے تیشے کی بابت کوئی سازشی نظریہ بیان کرنا چاہتے ہیں۔  برائے بحث اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ مجنوں کو بلاگ لکھنے کی سہولت دستیاب ہوتی یا لیلی ٹُویٹر کے ذریعے حال دل اپنا پیچھا کرنے والوں تک پہنچا سکتی تو داستان لیلی مجنوں آج کے گاؤدی عشاق کے لیے بھی اطلاقی مضمون بن سکتی تھی۔ اب صورت حال یہ کہ عشق کی حدت تو صدیوں پرانی ہی محسوس کی جاتی ہے لیکن ایک سو پچیس الفاظ میں درد کی شدت بیان کرنے کے لیے اساتذہ عاشقوں کی طرف سے کسی قسم کا کوئی سانچہ دستیاب نہیں۔ ایسی صورت میں آج کے وارث شاہوں کی توجہ حاصل کرلینا  ایسا جوکھم  ہے جو ایک عام ایس ایم ایس عاشق کے لیے اٹھانا محال ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جدید داستان عشق شام کے اخبارات سے آگے نہیں بڑھ پارہیں۔
آج کی لیلی کو ہمارا یہی مشورہ ہے کہ اگر اسے بین الاقوامی مجلس برائے عاشقان کی رکنیت درکار ہے تو اُسے ایک ٹُویٹر لیلی بننا پڑے گا۔ مجنوں کی حماقتوں پر سہے جانے والے درد سے لمحہ بہ لمحہ معہ تصاویر عوام کو مطلع کرنا انتہائی ضروری اور جہاں ضرورت پڑے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے یوٹیوب کی مدد بھی لینا ہوگی۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ محض راویوں کے پسندیدہ واقعات داستان کا حصہ بننے سے محفوظ رہیں گے اور داستان ایک رواں تبصرے کی شکل میں دستیاب رہے گی وہیں غزالاں کو بھی مجنوں کی زندگی کے آخری لمحات اور اس کے بعد ویرانےکے تاثرات کا حساب کتاب دینے سے نجات ملے گی۔ مجنوؤں کے بلاگ سے نو وارد عاشق پتھراؤ سے بچنے کی ترکیبیں، صحرا میں سودن کیسے گزاریں؟  سگ لیلی کو پہلی ملاقات میں قابو کرنے اور پہاڑ کھودنے کے آسان طریقے جیسی اہم معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ہی اپنے پر مغز تبصروں سے واقعات عشق کو مذہبی تہوار کا درجہ دلانے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اگر صادق جذبہ ہی عشق کی کامیابی کی کنجی ہوتا تو محض نامرادوں کی داستانِ عشق ہی کلاسیک کا درجہ نہ پاتی۔ آج کی دنیا میں نامراد عشق کی کوئی جگہ نہیں اور ایک کامیاب عشق کے لیے بھرپور پروپیگنڈا، ٹیکنالوجی کا استعمال اور “بیک اپ” انتہائی اہم ہتھیار ہیں۔ آزمائش شرط ہے ورنہ شام کے اخبار کا اپنا ایک وسیع اور مخصوص حلقہ ہے یوں بھی بدنام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا؟
مضمون   نگار:               راشد کامران
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]