قوموں کی زندگی میں بعض دن‘ مہینے تاریخیں اور تہوارخصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور زندہ قومیں انہیں اپنے عقائد ونظریات کے مطابق جوش وجذبہ کے ساتھ مناتی ہیں
جس سے ایک طرف اقوام عالم کے درمیان ان کی علیحدہ پہچان قائم ہوتی ہے مذہبی ونسلی تشخص برقرار رہتاہے دوسری طرف نئی نسل کو بھی اپنی مذہبی وملی اقدار وروایات اور ان کی اہمیت سے روشناس کروایاجاتاہے ۔ یہی وہ اہم نکتہ یا بنیادی مقصد ہے جو کسی بھی مذہب کے پیروکاروں اور افراد قوم کو باہم جوڑکر سلامتی‘ سربلندی اور وقار عطاکرتاہے۔ با شعور اورغیور قومیں اس پر سمجھوتا کرتی ہیں نہ ہی کسی کو )کسی بھی محاذپر) اپنی سالمیت وآزادی پرشب خون مارنے اور اپنی موجودہ وآئندہ نسلوں کی تباہی کی اجازت دیتی ہیں۔ دیگر اقوام کی طرح ہم بھی بحیثیت مسلمان اور من حیث القوم نہایت شاندار‘ منفرد اورخوبصورت تہذیب وثقافت‘ رسوم ورواج‘ اقدار وروایات اورتاریخی ورثہ رکھتے ہیں۔ عیدین ‘ 14 اگست‘ 6 ستمبر‘ 23 مارچ سمیت کئی دن ‘ تہوار اورتاریخیں ہمیں اپنے دین اور زمین سے جوڑے رکھنے کے لئے موجود ہیں اورکچھ عرصہ پہلے تک جنہیں عقیدت واحترام اور ملی جوش وخروش کے ساتھ منانے کا اہتمام کرکے مذہبی وثقافتی ورثہ کی نئی نسل کو منتقلی کا فریضہ کسی حد تک انجام دیاجاتارہاہے مگر گذشتہ ایک ڈیڑھ عشرہ سے روشن خیالی وترقی پسندی اور جدیدیت کی ایسی ہوا چلی ہے جس نے سارا منظرہی نہیں اس قوم کے دلوں اور ذہنوں تک کو بدل ڈالاہے۔ ایک طرف الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کے ذریعہ مغربی وہندی تہذیب وثقافت کے سونامی کی منہ زور موجیں ہماری عائلی ومعاشرتی زندگی کو لمحہ بہ لمحہ نگل رہی ہیں‘ ہماری مذہبی تہذیبی‘ ثقافتی‘ اخلاقی اور تاریخی اقدار وروایات کو تیزی سے خس وخاشاک کی طرح بہائے لئے جارہی ہیں تو دوسری طرف نہایت خاموشی سے شاطرانہ مہارت ومکارانہ سازش کے ساتھ مربوط ومنظم انداز میں موجودہ وآئندہ نسلوں کی مکمل تباہی کا سامان ملک کے طول وعرض میں پھیلے نجی انگریزی میڈیم اسکولوں کے ذریعہ کیاجارہاہے مگر کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ‘ تدارک تو دورکی بات ہے۔
28 اکتوبرکی شام بہن کا فون آیا کہ بجو! یہ ہیلوین ڈے کیاہوتاہے اورکیوں منایاجاتاہے؟“ کچھ دیر سوچنے کے بعد ہم نے اسے بتایا کہ ”بھئی! زیادہ تو نہیں معلوم بس اتنا پتاہے کہ یہ انگریزوں کا کوئی تہوارہوتاہے اور اس دن وہ مختلف کاسٹیوم اور ڈراﺅنی شکلوں والے ماسک وغیرہ پہن کر گھومتے ہیں مٹھائیاں بانٹتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو؟“ کہنے لگی” ماہا کے اسکول میں یکم نومبرکو تو ہیلوین ڈے منایاجارہاہے جس میں اسے ”باربی“ بنناہے۔ اس کی ٹیچر نے ایک لسٹ بھجوائی ہے جس کے مطابق کپڑے اور دوسری چیزیں خریدنی ہیں۔۔۔میں سوچ رہی تھی کہ اگر یہ ان کا کوئی مذہبی تہوارہے تو بچی کو اسکول نہ بھجواﺅں اورٹیچرسے بھی معذرت کرلوں....آپ ذراکسی سے تفصیل پوچھ کر تو بتائیں“ ”اگر اسکول والے یہ دن منارہے ہیں تو تم نے انہی سے کیوں نہیں تفصیل پوچھ لی۔ ظاہرہے انہیں سب پتاہوگا جبھی تو پروگرام رکھاہے“ ہم نے کہا۔ ”پوچھاتھا....انہوں نے کچھ نہیں بتایا سوائے اس کے کہ فینسی ڈریس شو کروایاجائے گا“ ”تو پھر پریشانی کی کیابات ہے زیادہ سے زیادہ بھی کچھ ہوا تو بچوں کو ڈراﺅنی شکلوں والے ماسک اور مختلف کاسٹیوم پہناکراسٹیج پرپرفارم کروادیں....لیکن اگر تمہارا دل نہیں مانتا تو پھر اسے چھٹی کروالو“ ہم نے مشورہ دیا تو الجھ کر بولی ”اچھا چلیں کرتی ہوں کچھ“ فون بندہوتے ہی ہم نے ادھرادھرسے ہیلوین ڈے کی تفصیل جاننے کی کوشش شروع کردی۔ مگر معلومات میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہوسکا کہ اکثریت کو اتنا بھی علم نہیں تھا جتنا کہ ہم بہن کو بتاچکے تھے۔ بالآخر انٹرنیٹ سے رجوع کیا اور تفصیل جان کر حیرت وافسوس کے ساتھ عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی....ہیلوین ڈے کا آغاز صدیوں سے پہلے آئرلینڈ سے ہوا تھا جہاں اکتوبرکے آخرمیں فصلوں کی کٹائی کے موقع پر دیہاتوں میں کسان فصلوں کو اورشہروں میں عام لوگ خود کو ارضی وسماوی آفات وبلیات‘ بیماریوں‘ بدروحوں‘ اوربھوت پریت وغیرہ سے سارا سال محفوظ رکھنے کے لئے ان تقریبات کا انعقادکرتے تھے۔ رات کو جگہ جگہ بڑے پیمانے پر بون فائرکا اہتمام کیاجاتا یعنی آگ کے بڑے بڑے الاﺅ دہکاکر لوگ خوفناک شکلوں والے ماسک پہن کر آگ کے گرد چکرلگاتے ‘ خوب شورکرتے اور جانوروں کی ہڈیاں آگ میں ڈال کر گویا سارے سال کے لئے اپنے اناج سمیت محفوظ ہوجاتے۔ پھر مٹھائیاں بانٹی جاتی تھیں....یہ ہے ہیلوین ڈے کی حقیقت جسے اہل مغرب اب بھی جوش وخروش سے مناتے ہیں مگر کیا اسلام ایسی تو ہم پرستی کی اجازت دیتاہے ؟ کیا مسلمانوں کے ملک میں‘ مسلمان اساتذہ‘ ننھے منے معصوم مسلمان بچوں کو ایسی مشرکانہ وتوہم پرستانہ روایات سے متعارف کرواکر اپنے پیشہ کا حق اداکررہے ہیں؟ ہولی‘ دیوالی‘ بسنت‘کرسمس‘ نیوایئروغیرہ جیسی خرافات اور ویلنٹائن ڈے‘ مدرزڈے‘فادرڈے‘ وغیرہ جیسے دنوں کی یلغارنے تو ہماری نئی نسل کی (صحیح معنوں میں) مت مار رکھی تھی کہ اب نیا ”شوشا“ چھوڑ دیاگیا ہے جس کا نشانہ وہ دو دو ‘ تین تین ‘ سال کے معصوم بچے ہیں آج جن کے ذہنوں کی سلیٹ بالکل صاف اور سادہ ہے۔ کیا اسلام اورپاکستان کے دشمنوں کے لئے کل اس نسل کو شکست دینے یا غلام بنانے کے لئے کسی بڑی جنگ یا ایٹم بم کی ضرورت رہے گی۔؟؟؟ یکم نومبر کی رات بہن کا فون آیا تو ہم نے چھوٹتے ہی تقریب کا حال پوچھا ‘ نہایت دل گرفتہ انداز میں بولی ”والدین کو تو جانے کی اجازت ہی نہیں تھی کوئی مہمان خصوصی بھی مدعو نہیں کئے گئے تھے مگر میں زبردستی چلی گئی اور جو کچھ دیکھا وہ ہوش اڑانے کو کافی تھا....اسٹیج کو نہایت مہارت سے خوفناک چہروں‘ رات کے ڈراﺅنے منظر اور بڑی بڑی چمگادڑوں سے سجایا گیا تھا میں پروگرام شروع ہونے کے بعد پہنچی تھی‘ اسٹیج پر کچھ بچے اور بچیاں چمکیلے بھڑکیلے کپڑے پہنے ایک دوسرے سے چپکے جوڑوں کی شکل میں ایک مشہور انگریزی گانے پر ڈانس کررہے تھے۔ اس کے بعد ایک انڈین گانے پر بچیوں سے ڈانس کروایاگیا۔ طرح طرح کی شکلوں والے ماسک لگائے اور مختلف کاسٹیوم پہنے بچوں نے بھی پرفارم کیا مگر زیادہ زور بے ہودہ گانوں پر بچوں سے ڈانس کروانے پر تھا....مجھے پروگرام کے متعلق کچھ نہ بتانے والی ٹیچرکے اندازمیں نہ کوئی ندامت تھی اور نہ شرم.... گویا جان بوجھ کر انہیں لاعلم رکھا گیا کہ وہ بچی کو کہیں حصہ لینے سے نہ روک دیں۔ ....سوچنے کی بات ہے کہ اگر پروگرام میں حصہ لینے والے بچوں کے والدین کونہیں بلایاگیا۔ کوئی مہمان خصوصی مدعونہیں کیاگیا تو تقریب کے انعقاد کا مقصد کیاتھا؟؟ یہی ناکہ والدین کو بے خبر رکھ کر ان کے معصوم بچوں کی برین واشنگ کی جائے۔ وہ درسگاہیں جو علم کا نور بانٹتی تھیں‘ نسلوں کو زیور علم سے آراستہ کرتی تھیں‘ اقبال کے شاہینوں کو پلٹنے‘ جھپٹنے‘ جھپٹ کر پلٹنے کا درس دیاکرتی تھیں آج تھرکنے مٹکنے‘مٹک کر لپٹنے کی تربیت دے رہی ہیں۔ ستاروں پرکمند ڈالنے والے نوجوان پتلونوں میں ازاربند ڈالے کان میں بالی‘ ہاتھ میں چوڑی‘ گلے میں چین اور دوپٹا ڈالے لمبے بالوں کی پونیاں بنائے نزاکت میں لڑکیوں کوبھی مات کررہے ہیں۔ یہ صحبت زاغ ہی کا اثر تو ہے کہ شاہین بچے بلندپروازی کی روش ترک کرکے فحاشی وبے حیائی کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ بوائے فرینڈزاورگرل فرینڈزکی دوستیاں‘ بارہ بارہ چودہ چودہ برس کی کچی عمروں کے معاشقے اسی مخلوط نظام تعلیم اور انداز تربیت کی دین ہیں۔ 14 اگست یوم پاکستان اور 6 ستمبر یوم دفاع پاکستان جیسے اہم قومی دنوں کو منانے کی ضرورت تو محسوس نہیں کی گئی مگر ان مغربی وہندی تہذیب وثقافت پرمبنی تقریبات کا خصوصی انعقاد ان خوبصورت ناموں اور معیاری نظام تعلیم مہیاکرنے کے دعویداراسکولوں کی قلعی کھولتا اور ان کے مذموم مقاصد کوعیاں کرتاہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ والدین جائیں تو جائیں کہاں....؟؟ سرکاری اسکولوں کی حالت زار بھی خاصی عبرت ناک ہے کہ جہاں ایک ایک سیکشن میں بچوں کی تعداد 60‘ 50 بلکہ 70 تک جاپہنچی ہے۔ ارباب اختیار وصاحبان اقتدارکی تعلیم جیسے اہم اور حساس شعبہ سے عدم دلچسپی وبے رغبتی ناقابل فہم ہی نہیں باعث افسوس بھی ہے۔ حکمرانوں کی اسی چشم پوشی کی بدولت تعلیم کو کاروباربنانے اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے اس قوم کے بچوں کی زندگیاں تباہ کرنے والوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ایسے میں اپنے مستقبل(طلباء) کو ان نوخیز پھولوں اورکومل کلیوں کو ‘ ان شاہین بچوں کو کرگسوں کے نرغے سے رہائی دلانے کے لئے تمام والدین کو نام نہاد روشن خیالی و ترقی پسندی کے جوش میں سب کچھ گنوادینے کے بجائے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ یہ بچے ہی اس ملک کا آخری سہارا اور آخری امید ہیں۔
مضمون نگار : بجوآپا۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحبہ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]