انکشاف ہوا ہے کہ 16 اکتوبر کو بھارت کے ضلع گوا کے شہر مڑگاﺅں میں جو بم دھماکا ہوا تھا‘ جس میں دوافراد مالگونڈا پاٹل اور یوگیش نایک ہلاک ہوگئے تھے‘ اس میں موقع واردات سے پولیس کو کچھ ایسی اشیاءملی تھیں جن سے یہ ظاہرکرنا مقصود تھا کہ گویا دھماکا کرنے والے مسلمان تھے۔
مگر یہ ظاہر اُس وقت ہوتا جب پاٹل اور نایک اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے‘ یعنی دھماکا خیزمادہ اپنے منتخب مقام پر رکھ کر فرار ہوجاتے۔ دھماکا دیوالی کی بھیڑ والے مقام پرہوتا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ مارے جاتے۔ پھر بڑے پیمانے پر خبر آتی کہ ”موقع واردات سے ایک شاپنگ بیگ جس پر’’ خان مارکیٹ دہلی ‘‘چھپا ہوا ہے’’عطرکی ایک شیشی‘‘ اور’’ باسمتی چاول ‘‘ کا ایک تھیلا ملا ہے جس پر اردو عبارت لکھی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پولیس کے حوالے سے کسی مسلم گروپ کا نام لیا جاتا(اِس بار شاید ”گوا مجاہدین“دریافت کیے جاتے) اور میڈیا اسے آناً فاناً ساری دنیا میں مشہورکرکے دہشت گردی کے تار ایک سرے سے دوسرے سرے تک جوڑنا شروع کردیتا۔ لیکن اس سے بھی خطرناک کام یہ ہوتا کہ مسلم مخالف کشیدگی پورے گوا میں پھیل جاتی اور دیگر ریاستوں میں بھی شرپسند عناصر اچھل کود شروع کردیتے۔ لیکن اس بار بھی قدرت کو وہی منظور ہوا جو اس سے قبل نانڈیز اورکانپور میں منظور ہوا تھا، یعنی سازشی اپنی سازش کا شکار خود ہوگئے۔ بعض افراد گمان کرسکتے ہیں کہ پاٹل اور نایک بے وقوف تھے جو اتنے بھونڈے ثبوت ساتھ لیے پھررہے تھے۔ تو یہاں واضح ہوکہ وہ لوگ نہ تو بے وقوف تھے نہ بے خبر تھے۔ جو کچھ کررہے تھے سوچ سمجھ کر کررہے تھے۔ وہ تجربہ کار تھے اور مروجہ طریقے کے مطابق اپنا کام انجام دینا چاہتے تھے۔ اب بم پہلے ہی پھٹ گیا تو اس میں ان کا کیا قصور۔ اس طریقے پر تو ایک عرصے سے پورے ملک میں عمل کیا جارہاہے۔ اور ثبوت بھونڈے کیوں؟ جہاں پولیس اور میڈیا کے لیے یہ نہایت ”ٹھوس“ ثبوت ہیں وہیں پبلک ان پر بغیر کسی پس وپیش کے یقین کرلیتی ہے۔
بشکریہ : دعوت دہلی
ادارہ’’سنپ‘‘ دعوت دہلی کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]