کسی خاتون کو پردہ کرنے پر مجبور کرنا یا کسی خاتون کو بزور حکم پردہ نہ کرنے دینا .... یہ دونوں ہی احکامات شخصی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔مگر ایک حکم کو تو دنیا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتی ہے اور دوسرے سے صرف ِ نظر۔
سعودی عرب، ایران، افغانستان میں جب خواتین کو سر ڈھانپنے کا حکم دیا جائے تو یہ حکم دینے والے رجعت پسند، متعصب، جاہل، انتہا پسند اور بنیاد پرست کہلاتے ہیں۔ اور اگر یہی شخصی آزادی انسانی حقوق کے دعویدار آزاد خیال ممالک میں نافذ کردیں تو انہیں کیا کہا جائے۔ لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہیں پہنیں، حکومت کا یہ کام نہیں کہ وہ لوگوںکو یہ حکم دے کر انہیں کیا پہننا چاہیے۔یہ حکم انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے یہ ہمارے ایمان پر حملہ ہے۔یہ میری مرضی ہے کہ میں حجاب پہنتی ہوں، میں اسے ترک نہیں کرسکتی۔ یہ بیانات ان خواتین کے ہیں جو حجاب پر پابندی سے متاثر ہورہی ہیں۔یہ باحجاب خواتین جو کہ اپنی پوری زندگی کے شب و روز انہی یورپی ممالک میں گزار چکی ہیں، اکثر یہاں کی شہریت بھی رکھتی ہیں اور بیشتر وہ ہیں جو حال ہی میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئیں۔ ان خواتین کو جرمانہ دینا تو گوارا ہے مگر بے پردگی نہیں۔ ہر مذہب کی کچھ اخلاقی اقدار ہوتی ہیں اورحیاء، پردہ اسلام کی بنیادی قدریں ہیں۔ حدیث نبویﷺ ہے کہ ”جس میں شرم و حیا نہیں اس میں ایمان نہیں۔“یورپی ممالک میں باپردہ خواتین کو تمام عوامی مقامات پر آنے سے روک دیا گیا ہے، اب نہ وہ صحت کی سہولیات حاصل کرسکیں گی نہ انہیں تفریح کے مواقع میسر آسکیں گی، وہ اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ جائیں گی۔ اس بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ یورپ نے حجاب پر پابندی لگاکر ایک خطرناک مثال قائم کی ہے۔ایک اور تنظیم نے کہا ہے کہ یہ آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، جو خواتین اپنے عقیدے کے مطابق پردہ کرتی ہیں انہیں یہ قانون نافذ کرکے اپنے مذہبی فریضے کی ادائیگی سے روکا جارہا ہے۔فرانس کے صدر نکولس سرکوزی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ”برقعہ کے لیے فرانس میں کوئی جگہ نہیں“۔ یورپ جو خود کو سیکولر اور رواداری کی روایت کا امین گردانتا ہے،اس نے اسلامی شعائر کی ایک نمایاں علامت پردے کو نشانہ بنایا۔ یکے بعد دیگرے یورپی ممالک میں حجاب پر پابندی کے قانون نافذ کیے جارہے ہیں۔ خیالات کی آزادی، بولنے کی آزادی، رہنے کی آزادی، اور مذہبی آزادی کسی بھی معاشرے کی رواداری کو جانچنے کا پیمانہ ہیں۔ یورپ میں عائد کی گئی حجاب پر پابندی اس کے دوہرے معیار اور اس کی اسلام دشمنی کو ظاہر کرتی ہے۔ایک جانب تو رواداری اور آزادی کا دعویٰ، اور دوسری جانب انسانوں کی بنیادی شخصی آزادی پر قدغن لگانا۔حضرت فاطمة الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: ”عورت کے لیے باپردہ ہونا ایسا ہے جیسے موتی اپنے خول میں محفوظ ہوتا ہے۔“موتی انمول ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے چھپا کر سیپی میں رکھا ہوتا ہے۔ویسے بھی عورت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ڈھکی ہوئی، چھپی ہوئی چیز کے ہیں۔ایک مسلمان عورت کے لیے باپردہ ہونا اس لیے لازم ہے کہ اس کا حکم اسے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے دیا ہے۔سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہی: ”نبی کی بیویو!!!، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو، اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔“ (آیت نمبر۳۳،۳۲)اس پابندی کی وجہ سے جہاں یورپ کی سماجی اور معاشرتی ساکھ متاثر ہوئی ہے وہیں دوسری جانب یورپ کو اس کا معاشی خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا، کیونکہ یورپ نے یہ پابندی نہ صرف یورپی خواتین پر نافذ کی ہے بلکہ جو خواتین سیاح کی حیثیت سے یورپ آئیں گی، یا جو خواتین باپردہ یورپ میں داخل ہوں گی وہ اس نئے قانون کی زد میں آئیں گی۔ حجاب پر پابندی کے قانون کے اطلاق سے یورپ کو جو معاشی نقصان ہوگا اس کا اعتراف ٹریول کمپنیوں نے بھی کیا۔ گلف سے وابستہ ٹریول کمپنی نے بتایا ہے کہ فرانس میں ہزاروں سیاح مشرق وسطیٰ سے آتے ہیں، وہ سیاح اب یہاں کا رخ نہیں کریں گے۔اورینٹ ٹریولز نے کہا کہ مسلمان اپنے نجی معاملات خصوصاً اپنے گھر کی خواتین کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور جب انہیں اس بات کا خدشہ ہوگا کہ ان کی خواتین کو اب یورپ میں ہراساں کیا جائے گا تو وہ یورپ آنے کے بجائے کہیں اور جانے کو ترجیح دیں گے جہاں انہیں بغیر کسی خوف کے تفریح کے مواقع میسر آسکیں۔ٹریول کمپنیوں کے تجزیے کے مطابق مشرق وسطیٰ کے لوگوں کے لیے برطانیہ کے بعد فرانس دوسرا بڑا تفریحی مقام ہے اور پیرس کے بازاروں اور تفریحی مقامات پر باپردہ خواتین اکثر دیکھی جاتی ہیں۔Saudi-based Al Tayyar Travel کے مطابق یورپ کو سیاحت کے شعبے میں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا، خصوصاً اسے اس منافع سے ہاتھ دھونا پڑے گا جو مشرق وسطیٰ سے آئے ہوئے خاندانوں سے یورپ کو حاصل ہوتا ہے۔مسلمان اور انسانی حقوق سے وابستہ ادارے مطالبہ کرتے ہیں کہ دنیا خصوصاً یورپ شخصی اور مذہبی آزادی کو سلب کرنے والے اس غیر منصفانہ قانون کو ختم کری۔ان دو مثبت خبروںکو پیش نظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ امید کی کرن باقی ہی۔حال ہی میں فیفا نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی ہے جس میں ایران کی خواتین فٹبال ٹیم کی کھلاڑیوں کو اسکارف پہننے پر اولمپکس میں شرکت سے روک دیا گیا تھا، مگر ایرانی حکومت کے احتجاج کے بعد فیفا نے یہ پابندی ختم کردی، اور اب ایران کی فٹبال ٹیم کی کھلاڑی اسکارف پہن کر اولمپکس میں حصہ لے سکیں گی۔ دوسری خبر کے مطابق یورپ میں حجاب پر عائد پابندی سے متعلق جب امریکی صدر بارک اوباما سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ کا بھی امریکا میں حجاب پر پابندی لگانے کا ارادہ ہے تو اوباما نے کہا "In the United States our basic attitude is that we're not going to tell people what to wear" ”ریاست ہائے متحدہ امریکامیں ہمارا رویہ یہ نہیں کہ ہم لوگوںکو بتائیں کہ انہیں کیا پہننا ہے۔“
چلتے چلتے ایک خبر بھی ،جو نوید صبح ِ نو ہے :
امریکا میں گیٹ وے ہائی اسکو ل نے فلسطینیو ں کے روایتی چیک دارا سکا رف کوفیہ اوڑھنے پر پابندی عائد کر نے کا حکم واپس لے لیا ہے ۔ ریاست پینسلوانیا میں گیٹ وے ہائی اسکو ل کے تین طلبہ پر سرپو ش کو فیہ کو اوڑھ کر کلا س میں آ نے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ تاہم اسکول انتظامیہ کا موقف ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ تعلیمی ادارے میں مسلمان اور یہودی طلبہ کے درمیان تناؤ کو کم کرنے کے لیے کیا تھا جس کو اب واپس لے لیا گیا ہے ۔مسلمان طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کے ایک یہودی کلاس فیلو اسکارف کو قابل نفرت قرار دیا تھا جس کے بعد سے مسلمان اور یہودی طلبہ میں کشیدگی پائی جاتی تھی ۔