بھارت ممبئی حملوں کا بدلہ لینے کی آڑ میں پاکستان کے خلاف جس منظم انداز میں بین الاقوامی سطح پر مہم چلا رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔
بھارت اپنی تمام تر توانائیاں صرف اسی جانب مرکوز کئے ہوئے ہے کہ کس طرح پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرے اور کس طرح اسے بین الاقوامی طور پر سبق سکھایا جائے؟ پاکستان کو اندرونی طور پر نقصان پہنچانے کے لئے پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم بھارتی سفارت خانے جو درحقیقت ”را“ کے مراکز ہیں، پاکستان میں اپنی کارروائیاں تیز کئے ہوئے ہیں۔ وادی سوات وہ علاقہ ہے جو گل و لالہ اور امن و آشتی کا گہوارہ تھا۔ سیاحت کے دلدادہ لوگ اندرون و بیرون ملک سے ذہنی سکون کے حصول کے لئے یہاں آتے اور حسین یادوں کے ساتھ واپس لوٹتے تھے۔ سوات کے لوگ مذہبی پختگی اور مہمانداری میں اپنی مثال آپ تھے۔ مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس علاقے کو نظر لگ گئی اور یہ اپنوں ہی کے ہاتھوں دشمنوں کی سازش کا شکار ہوگیا۔ یہاں پھولوں کی جگہ بارود گرنے لگا اور امن و آشتی کی زندگیاں گزارنے والے بے سکونی کا شکار ہوگئے۔ دوسری جانب وانا، بلوچستان، وزیرستان، پشاور اور صوبہ خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں کتنے ہی بے گناہ گھر سے بے گھر ہوگئے اور ان کی زندگیوں کا سکون برباد ہوگیا۔ دشمن ایک سازش کے تحت اپنے وہ تمام مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہورہا ہے جن کا سپنا وہ گزشتہ چھ دہائیوں سے دیکھ رہا تھا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والی شرانگیزیوں کے پیچھے ہمسایہ ملک کا ملوث ہونا تو خود ہماری حکومت نے بھی تسلیم کیا ہے اور سچ بھی یہی ہے کہ ملک میں جتنی بھی دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں ان میں بھارتی ہاتھ ملوث ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔ شیطانی ہاتھوں کے منحوس سائے نے حصولِ علم میں مصروف طلبہ کے بے گناہ خون سے بھی ہاتھ رنگنا شروع کردیئے ہیں۔ اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ہونے والے خودکش دھماکے نے تو سب کو حیران کردیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بیکن ہاﺅس، امریکن اسکول سسٹمز، آرمی اسکولز اور ایسے دیگر تعلیمی اداروں کو دھمکی دینے والے ہاتھ اسلامی یونیورسٹی جیسے ایک غیر متنازعہ تعلیمی ادارے کو بھی اپنی درندگی اور ہوس کا نشانہ بناسکتے ہیں۔ دوسری جانب انہی عناصر کی جانب سے میڈیا کے دفاتر، ہسپتالوں اور ہوٹلوں کو بھی نشانہ بنانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد حکومت کی جانب سے پہلے تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے اور پھر یہ کہہ کر ان کی بندش ختم کردی گئی کہ تمام تعلیمی ادارے اپنی سیکورٹی کا مناسب انتظام خود کریں۔ جس کے بعد والدین پریشان اور طلبہ سخت خوفزدہ ہیں۔ والدین کشمکش کا شکار ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں یا نہ بھیجیں ....؟؟؟ پرویزمشرف کے دور حکومت میں دہشت گردی کی کارروائیاں حد سے بڑھیں تو سیاسی و مذہبی جماعتوں اور عوامی حلقوں کی جانب سے یہ شور اٹھا کہ ان بم دھماکوں سے نجات کا واحد حل پرویزمشرف کی رخصتی ہے۔ مگر پرویزمشرف کو رخصت ہوئے اور زرداری حکومت کو آئے بھی تین سال کا عرصہ ہونے کو ہے، لیکن یہ انسانیت سوز واقعات کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ دہشت گردوں کی دہشت پولیس اسٹیشنوں، فوجی اداروں اور حکمرانوں کی ذات سے ہوتی ہوئی مساجد اور تعلیمی اداروں تک پہنچ چکی ہے۔ مساجد میں بندوقوں اور سنگینوں کے سائے میں نماز ادا ہورہی ہے اور وردی والوں کے پہروں کے بغیر تعلیم و تدریس کا عمل بھی انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔ حکمرانوں کی بے بسی کی انتہا یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کو ”طالبان کا کارنامہ“ قرار دے کر حکمران اپنے کاندھے سے بوجھ اتارکر دوسروں کے سر ڈال د یتے ہیں‘ حالانکہ ان کارروائیوں کے پیچھے طالبان سے بڑھ کر عموماً بھارت، اسرائیل اور امریکا کا ہاتھ ہوتا ہے جو ان نام نہاد ”طالبان“ کی پشت پناہی کئے ہوئے ہیں، مگر اس پہلو سے سوچنا انہوں نے کبھی گوارا نہیں کیا۔ تعلیم خوشگوار اور پرامن فضا میں حاصل کی جائے تو اس کا لطف بھی آتا ہے۔ لیکن نجانے ”بڑوں“ کی لڑائی کا بدلہ عام لوگوں سے کیوں لیا جارہا ہے؟ آج ہم جن حالات کا شکار ہیں وہ 1971ءکے حالات سے زیادہ خطرناک ہیں۔ ہم اس وقت جس بے یقینی کی کیفیت سے گزر رہے ہیں اور وطن عزیز کے حالات ایسی گنجلک شکل اختیار کرچکے ہیں کہ عوام کے لئے حقیقت کا اندازہ لگانا مشکل تر ہوگیا ہے۔ یہ سارا منظر درحقیقت چند نادیدہ قوتوں کا تشکیل کردہ ہے جو بیرونی اشارے پر پاکستان کے حالات کو بگاڑنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ بے یقینی کی یہ کیفیت خطے میں امریکی تسلط کو مضبوط کرنے کے لئے پیدا کی جارہی ہے۔ ہمارے عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ شدت پسند کون ہیں‘ ہماری فوج کس کس سے نبرد آزما ہے‘ اور آئے دن ملکی حالات بگاڑنے میں کس کا کردار ہے؟ ہم اس بات سے انکار نہیں کررہے کہ ان واقعات کے پیچھے ”نام نہاد طالبان“ کا ہاتھ ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ ان طالبان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ اس کا جواب بہت ہی سادہ اور آسان ہے.... پاکستان کے مغربی خطوں میں اس وقت امریکا، بھارت اور اسرائیل کی ایجنسیاں شدت کے ساتھ اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی مغربی سرحد پر موجود بھارت کے 21 قونصل خانے دراصل ”را“ کے مراکز کا کردار ادا کررہے ہیں۔ دوسری جانب ملک کے بیشتر حصوں میں امریکی چھاﺅنیوں کے قیام اور ”بلیک واٹر“ جیسی بدنام زمانہ امریکی تنظیم کے اہلکاروں کی بڑی تعداد میں موجودگی کے شواہد بھی سامنے آرہے ہیں۔ بھارت کی دہشت گرد تنظیم ”را“ اور امریکا کی ”بلیک واٹر“ کا نیٹ ورک پاکستان میں بری طرح پھیل چکا ہے۔ بھارت، امریکا اور اسرائیل پاکستان میں موجود ملک دشمن شدت پسندوں کی تربیت کرکے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ان ممالک کی پاکستان میں موجود ایجنسیاں ان ناسوروں کو پیسہ، اسلحہ اور روٹی‘ پانی فراہم کرکے ملک میں انتشار پھیلا رہی ہیں۔ یہ عناصر پاکستان دشمنوں کے ایجنٹ بن کر پاکستان میں مساجد، تعلیمی اداروں، فوجی اداروں، پولیس چوکیوں اور بے گناہ عوام کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ہمارا وطن چہار سو آگ اور بارود کی بُو سے بھر چکا ہے۔ یوں بڑی طاقتیں پاکستان کو نہ صرف دنیا میں تنہا کرنے میں کامیابی حاصل کرچکی ہیں بلکہ پاکستان کو بہت حد تک غیر مستحکم بھی کرچکی ہیں۔ لیکن ہماری سیاسی قیادت ہر واقعے کی کڑیاں وزیرستان سے ملا کر حقیقت سے آنکھیں چراتی اور عوام کی آنکھوں میں مسلسل دھول جھونکتی رہی ہے۔ وہ بلوچستان اور سرحدی علاقوں میں بھارت کی مداخلت کے واضح ثبوت کے باوجود اس کے خلاف احتجاج کرنے سے گریزاں ہے۔ ان تمام حالات نے بے یقینی کی کیفیت کو مزید بڑھادیا ہے۔ جب تک ان ”بڑے مگرمچھوں“ کے خلاف بھرپور اقدامات کرکے انہیں کنٹرول نہیں کیا جاتا اُس وقت تک ملکی حالات کا اعتدال پر آنا‘ امریکی و بھارتی کھلونوں ”طالبان“ کو گرفت کرنا‘ اور غیر ملکی ایجنسیوں کے عزائم کو ناکام بنانا ناممکن ہے۔
بشکریہ : روزنامہ جسارت کراچی۔
ادارہ’’سنپ‘‘ جسارت کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔صحافتی تعاون جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]