پاکستان میں بھی ایسے دو ٹانگوں والے سانپ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ان سانپوں کو پاکستان میں عزت و حقارت دونوں قسم کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ ان سانپوں سے بیک وقت ڈرتے بھی ہیں اور ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے بھی ہیں۔
اور جب وہ دورانیہ ختم ہو جاتا ہے تو یہ سانپ عوام کے درمیان سے نکل کر جنگلوں، گھاٹیوں میں چلے جاتے ہیں ، ایک سے لے کر تین سال تک انکا محبوب مسکن اسلام آباد کے خوبصورت مرغزار ہیں۔ ۔تین سے لے کر پانچ سال تک یہ آہستہ آہستہ واپس پاکستان کے باقی شہروں میں پھیل جاتے ہیں۔تاہم ہر دس سے پندرہ سال بعد ان سانپوں کی روٹین تبدیل ہو جاتی ہے کیونکہ اُس وقت پھنئیر سانپوں یعنی ڈریگنز کے آنے کا وقت ہو جاتا ہے۔ یہ ڈریگنز آتے ہی ان دو ٹانگوں والوں سانپوں کو مارنا اور کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ڈریگنز عموماً اسلام آباد میں رہنا پسند کرتے ہیں اور انکا عوام سے اتنا سروکار نہیں ہوتا۔تاہم آہستہ آہستہ دو ٹانگوں والے سانپ گروہ بندی کر کے ڈریگنز کو واپس اپنی سلطنت میں جانے پر مجبور کر دیتے ہیں جو اسلام آباد سے نزدیک ہی راولپنڈی میں ہے۔
یہ سانپ عموماً ہمارے ہر طرف پائے جاتے ہیں لیکن عام حالات میں انکی پہچان کرنا آسان نہیں۔ تاہم ہر کُچھ عرصہ بعد ان سانپوں کی شناخت بہت آسان ہو جاتی ہے۔ ہر دو سے پانچ سال کے درمیان یہ سانپ عوام کے درمیان انسانی شکل میں آ جاتے ہیں اور ان میں گھُل مل جاتے ہیں، ان سے پیار محبت کی باتیں کرتے ہیں، ان سے وعدے وعید کرتے ہیں، عوام کی ہر بُری بھلی بات کو سُنتے اور برداشت کرتے ہیں اور مسکراتےہیں۔
اور جب وہ دورانیہ ختم ہو جاتا ہے تو یہ سانپ عوام کے درمیان سے نکل کر جنگلوں، گھاٹیوں میں چلے جاتے ہیں ، ایک سے لے کر تین سال تک انکا محبوب مسکن اسلام آباد کے خوبصورت مرغزار ہیں۔ ۔تین سے لے کر پانچ سال تک یہ آہستہ آہستہ واپس پاکستان کے باقی شہروں میں پھیل جاتے ہیں۔تاہم ہر دس سے پندرہ سال بعد ان سانپوں کی روٹین تبدیل ہو جاتی ہے کیونکہ اُس وقت پھنئیر سانپوں یعنی ڈریگنز کے آنے کا وقت ہو جاتا ہے۔ یہ ڈریگنز آتے ہی ان دو ٹانگوں والوں سانپوں کو مارنا اور کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ڈریگنز عموماً اسلام آباد میں رہنا پسند کرتے ہیں اور انکا عوام سے اتنا سروکار نہیں ہوتا۔تاہم آہستہ آہستہ دو ٹانگوں والے سانپ گروہ بندی کر کے ڈریگنز کو واپس اپنی سلطنت میں جانے پر مجبور کر دیتے ہیں جو اسلام آباد سے نزدیک ہی راولپنڈی میں ہے۔
یہ سانپ دِکھنے میں زہریلے نہیں ہوتے بلکہ ہم جیسے ہی لگتے ہیں، ان کی باتوں میں بھی زہر نہیں سحر ہوتا ہے۔ یہ عوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کو پتھر کا بنا سکتے ہیں۔تاہم بباطن یہ نہایت زہریلے ہوتے ہیں۔ یہ سانپ انسانوں کے ساتھ ساتھ ڈریگنز کو بھی اپنےسحر و زہر کا شکار کر لیتے ہیں۔
یہ سانپ عوام کا خون چُوس کر زندہ رہتے ہیں اور عوام بھی برضا و رغبت ان سانپوں سے اپنا خون چُسواتے ہیں۔جس کی وجہ سے یہ سانپ انتہائی مضبوط اور طاقتور جبکہ عوام نحیف ہوتے جا رہے ہیں۔
چین میں پائے جانے والے دو ٹانگوں والے سانپوں کے بر عکس عموماً ان سانپوں کی موت واقع نہیں ہوتی۔ یہ سانپ اپنی کینچلی بدلنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ سانپ جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو ایک نئے سنپولیے جو میدان میں اُتار دیتے ہیں ۔یہ نیا سنپولیا جدید دور کی تراکیب استعمال کرتے ہوئے عوام کو اپنے سحر و زہر کا شکار رکھتا ہے۔
گذشتہ ساٹھ سالوں کے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ان سانپوں کے زہر کا کوئی تریاق پاکستان میں پُر اثر نہیں ۔ کیونکہ یہ سانپ اس تریاق کے خلاف بہت جلدی مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں۔
دانشور بتاتے ہیں کہ پاکستان میں یہ دا ٹانگوں والے سانپ بھی قومی DNAبگڑ جانے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور حالات حاضرہ بتاتے ہیں کہ یہDNAاب اپنی بگاڑ کی انتہائی صورت کو پہنچ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہو سکتا کہ کوئی بہت بڑا ڈریگن یا پھر کوئی انتہائی خطرناک دو ٹانگوں والے سانپ کا ظہور ہو۔۔۔جو عوام کا خون چوسنے کے بجائے ،انکی لاشیں گرانے میں دلچسپی رکھتا ہو۔
بشکریہ : پاک نیٹ۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]