اب تک تو ہم زور زبردستی اور دھمکیوں کے ذریعے حاصل کیے گئے پیسے کو بھتہ ہی سمجھتے تھے لیکن اب پتا چلا کہ اس کو پروٹیکشن منی (حفاظتی ٹیکس یا حفاظتی پیسہ) بھی کہا جاسکتا ہے۔
یہ نام اسے افغانستان میں موجود امریکی اور اس کی اتحادی افواج نے دیا ہے۔ دراصل یہ معاملہ ہے اپنی اپنی افواج کی حفاظت کا‘ لہٰذا طالبان سے محفوظ رہنے کے لیے انہوں نے ایک انوکھا اورنرالا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ اس کا انکشاف برطانوی اخبار ٹائمز نے کیا: برطانوی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2008ءکے ابتدائی مہینوں میں اطالوی افواج کے خلاف طالبان کے ریکارڈ حملوں کے بعد اچانک خاموشی چھا گئی جس نے ”بہت سوں“ کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ پھر پتا چلا کہ اطالوی افواج کو جہاں جہاں تعینات کیا جاتا تھا‘ وہ طالبان کی مقامی اور مرکزی قیادت کے ساتھ رابطہ کرلیتے تھے اور انہیں حملے نہ کرنے کے عوض ایک مخصوص رقم کی ادائیگی کی جاتی۔ ”ٹائمز“ کے مطابق اس سارے سلسلے کا کسی کو کچھ پتا نہ چلتا لیکن ہوا یہ کہ کابل کے نواح میں اگست 2008ءمیں اطالوی افواج کے بجائے علاقے کا کنٹرول فرانسیسی افواج کو دیا گیا۔ اطالوی افواج نے اپنا اڈہ خالی کرتے ہوئے اس مہینے کی رقم طالبان کو نہیں پہنچائی جس پر طالبان ناراض ہوگئے اور انہوں نے فرانسیسی افواج کے قافلے پر حملہ کردیا۔ طالبان نے اس حملے میں10 فرانسیسی فوجیوں کو ہلاک کیا اور ساتھ ہی قیمتی اسلحہ بھی لوٹ لیا۔ اس کے بعد طالبان نے لوٹے گئے اسلحہ کی نمائش بھی کی اورساتھ ہی انکشاف کیا کہ یہ ڈیل گذشتہ سال ہوئی تھی جس کے بعد انہوں نے ماہانہ بنیادوں پر دی جانے والی رقم کے عوض اطالوی ٹھکانوں اور کانوائے پر حملے نہیں کیے۔ افغانستان میں افغان حکام اور ان کے انٹیلی جنس ذرائع نے بھی اس ڈیل کی تصدیق کی ہے۔ نیٹو کمانڈر نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اطالوی افواج کی جانب سے طالبان کو بھتّہ دیا جاتا ہے۔ مغربی اخبارات میں اس خبر کے شائع ہونے کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ دیگر ممالک کی افواج بھی ایسا کرتی ہیں اور امریکی خفیہ ادارے سب کچھ جاننے کے باوجود خاموش ہیں۔ برسلز میں امریکی ایلچی برائے پاکستان و افغانستان رچرڈ ہالبروک نے وزراءخارجہ کے اجلاس میں شرکت سے پہلے کہا کہ ”افغان جنگ امریکا میں انتہائی غیر مقبول جنگ ہے اور امریکا کے لیے ویتنام اور عراق کی جنگوں کی طرح ہے“ لیکن ہمارے خیال میں افغان جنگ امریکا کے لیے ان جنگوں سے زیادہ شرمناک اور سبق آموز نظر آتی ہے۔ امریکا میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 57 فیصد امریکی عوام اس جنگ کے خلاف بلکہ شدید خلاف ہیں اور 62 فیصد امریکی شہری تو افغان جنگ میں امریکا کی شکست تسلیم کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل کرسٹل امریکی حکومت کو افغان جنگ سے خود کو بتدریج نکالنے اور متبادل کے طور پر ناٹو اور بعض اسلامی ممالک کی افواج کی تعیناتی کا مشورہ دے چکے ہیں۔ ساتھ ہی وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کی نیشنل فوج کو تربیت دے کر اس طرح تیار کردیا جائے کہ وہ افغانستان کو سنبھال سکے اور امریکی حکومت افغان افواج اور اپنی کٹ پتلی افغان حکومت کے ذریعے اپنے امریکی مفادات کا تحفظ کرے۔ امریکی حکومت بھی چاہتی ہے کہ اب مزید امریکی افواج اس جنگ کا ایندھن نہ بنے لیکن امریکی صدر کی طرف سے آنے والا حالیہ فیصلہ کچھ متضاد نظر آتا ہے جس میں افغانستان میں مزید 30 ہزار افواج بھیجنے کا اعلان کیا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ان کی تعیناتی قلیل مدت کے لیے ہوگی۔ اس موقع پر فرانس نے اپنے مزید فوجی بھیجنے سے یکسر انکار کردیا۔ یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ امریکی افواج کے سربراہ مائیک مولن نے کہا کہ 18 ماہ کے بعد افغانستان سے انخلا کے فیصلے کا مطلب وہاں سے مکمل روانگی نہیں بلکہ یہ سیکورٹی کنٹرول کی منتقلی اور تبدیلی کی حکمت عملی ہے۔ اس موقع پر امریکی نائب صدرجوبائیڈن نے امریکا کی بدلتی ہوئی افغان پالیسی کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ہدف القاعدہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم افغانستان میں ہیں‘ پھر انہوں نے مزید تشریح کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ قیادت پاکستان میں بھی موجود ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ہمارا فوکس اس پر ہونا چاہیے۔ اس کے فوراً بعد ہی برطانوی وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اسلام آباد القاعدہ سے مقابلے کی صلاحیت ثابت کرے۔ حیرت ہے جس صلاحیت کو وہ خود 40 ملکوں کی افواج کے ساتھ مل کر بھی ثابت نہ کرسکے‘ اس کا مطالبہ پاکستان سے کس بنیاد پر کررہے ہیں۔ دوسری ہی سانس میں وہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ برطانوی گلی کوچوں کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان میں اقدامات کرنے ہوں گے‘ دوسرے الفاظ میں عراق اور افغانستان کی طرح پاکستان کے گلی کوچوں کو نشانہ بنانا ہوگا۔ حالانکہ امریکی سینٹ کی رپورٹ کے مطابق تورا بورا پر حملے کے وقت جب اسامہ کو قابو کیا جاسکتا تھا تو امریکی حکومت نے جان بوجھ کر انہیں فرار کروایا۔ لہٰذا امریکی حکومت کا اصل غدار رمز فیلڈ ہے‘ جنہیں گرفتار کیا جانا چاہیے‘ جنہوں نے اس وقت اسامہ کو نشانہ نہ بنانے کا حکم دیا۔ افغان جنگ کو پاکستان کے اندر لانے کے مجرم خود پاکستان کے حکمران ہیں۔ اگر پاکستانی حکومت اور فوج پہلے دن امریکی ڈرونز کو مار گراتے تو آج ان دھمکیوں تک نوبت نہ پہنچتی اور گورڈن براﺅن کو پاکستانی گلیوں اور کوچوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی کا حوصلہ نہ ہوتا۔ آج بھی حکمرانوں کو لرزتی ٹانگوں پر قابو پاکر قبائلی علاقوں میں جاری لاحاصل آپریشن ختم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے کہ عوام کو دشمن بنا کر کوئی جنگ جیتی جاسکتی ہے نہ حکومت کی جاسکتی ہے۔ اقتدار کی کرسی عوام کی طاقت سے ہی مضبوط بنائی جاسکتی ہے۔ کاش ہمارے حکمران چیونگم کی طرح اس بات کو چبانے کے بجائے عملی طور پر عوام کی طاقت کو سمجھیں اور ان کی مشکلات کو حل کرنے کی کوششیں کریں۔
بشکریہ : مختلف اخباری رپورٹ کا خلاصہ۔