تیل کےذخائررکھنےوالےشمالی افریقی ملک لیبیاپرحملوں کےدوران امریکہ کی جانب سےیورینیم والے ہتھیاروں کےاستعمال کاانکشاف ہواہے۔
جو لیبیائی باشندوں کی نئی نسل کےخاتمے یاانہیں اپاہج کرنے کاسبب بن سکتےہیں۔امریکہ کی زیرقیادت حملہ آور افواج نے کارروائی کے ابتدائی24گھنٹوں میں 2ہزارپائونڈکے45سےزائدیورینم ملے بم لیبیا پر گرائے ہیں۔
امریکہ میں جنگ مخالف اتحاد کے رہنماڈیوڈولسن کاکہناہےکہ برطانیہ وفرانس کے طیاروں کی جانب سےابتداء میں کی گئی بمباری کےد وران ایسے ہتھیاراستعمال کیے گئے ہیں جو یورینیم سے آلودہ تھے۔
پینٹاگان کےڈائریکٹربرائے جوائنٹ اسٹاف وائس ایڈمرل ولیم ای گورٹنے نے اگر چہ لیبیاپرحملے کے دوران یورینم سے آلودہ ہتھیاروں کےاستعمال سے لاعلمی ظاہر کی ہے تاہم عراق پر2003ء میں امریکہ کی جانب سے بغداد،سمارا،موصل سمیت دیگربڑے شہروں میں کی جانےوالی بمباری کے دوران یورینیم استعمال کرنےسے آگاہ حلقے اس وضاحت کوماننے کو تیار نہیں۔
امریکی صحافی ڈیو لنڈورف کے مطابق برطانوی بحریہ کے فضائی طیاروں میں نصب20ملی میٹرقطر کی گنوں سےایسے گولے داغے گئے ہیں جوٹینکوں کے اندرگھس کرپھٹتے ہیں ۔برطانوی اورامریکی میرین پائلٹس کی جانب سےاڑائے جانےوالے طیاروں سےپھینکے گئےگولوں میں یورینیم کوبھی شامل کیاگیاہے۔
یورینیم ملے ہتھیاروں کےاستعمال کےمخالف عالمی اتحاد ICBUWکاکہناہےکہ زمین سےزمین پرمارکرنےوالے یورینیم ملے ہتھیاروں کے بعدآئندہ لڑائی میں اگریورینیم کوفضائی حملوں میں استعمال کیاگیا تو یہ ایک خطرناک کام ہو گا۔ماہرین کے مطابق امریکی فضائیہ کے زیراستعمال اے ایف 100تھنڈربولٹ اوراے وی،8بی ہیرئیرجہاز بھی یورینیم ملے ہتھیاروں کو فائر کرنے کے لئےاستعمال ہوتے ہیں۔
لیبیاکی جنگ میں یورینیم کےاستعمال کی مخالفت کرنےوالوں کایہ بھی کہناہےکہ ماضی میں عراق کی طرح یہاں بھی اس کے سنگین نقصانات سامنےآسکتے ہیں۔یادرہے کہ عراقی شہروں میں جہاں یورینیم کااستعمال کیاگیاتھاامریکی فوج کاجاناممنوع تھا جب کہ طبی رپورٹس کے مطابق ان حملوں کے بعدمذکورہ علاقوں میں لیوکیمیا سمیت نوزائیدہ بچوں میں دیگرسنگین بیماریاں سامنےآئی تھیں۔جب کہ2004ء میں یورینیم ملے ہتھیاروں کاخصوصی نشانہ بننےوالے فلوجہ شہر میں بدہئیت بچوں کی پیدائش میں اضافہ بھی ہواہے۔
امریکہ یونیورسٹی مشی گن کی جانب سےدسمبر2010ء میں شائع ہونےوالی رپورٹ کے مطابق یورینیم ملے ہتھیاروں کی فائرنگ کانشناہ بننےوالے 3لاکھ آبادی کےفلوجہ شہر کے جنرل ہسپتال میں صرف ایک مہینےکےدوران 547ایسے بچوں کی ولادت ہوئی ہے جن میں سے15فیصدتابکاری کااثرلئے ہوئے تھے۔یہ عالمی سطح پرپیدائش کے دوران پیداہونےوالی خرابیوں کےتناسب 3فیصدسےکئی گنا ذیادہ تھا۔جب کہ ستمبر2009ء میں اسی ہسپتال میں 170بچوں کی پیدائش ہوئی جن میں سے24فیصدپیدائش کےپہلے ہفتے میں ہی انتقال کر گئے تھے۔امریکی حملہ سے قبل ماہانہ ولادتوں کی تعداداگست 2002ء میں 530 جبب کہ پیدائش کے بعدموت کاشکار ہونےوالے بچوں کی تعداد6تھی۔
یورینیم ملے ہتھیاروں کے علاوہ مالی خسارہ بھی امریکہ میں انتظامیہ پرتنقید کاسبب بن رہاہے۔امریکہ میں سینٹرفاراسٹریٹیجک اینڈبجیٹری اسسیسمنٹ نامی ادارے کے سینئر فیلو ٹوڈ ہیریسن کاکہناہےکہ امریکہ کی جانب سےلیبیامیں شروع کیاگیاآپریشن ایک ارب ڈالرکی لاگت سے تجاوز کرجائے گا جب کہ نتائج کے بارے میں کچھ واضح نہیں ہے۔
قبل ازیں 17مارچ کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سےنوفلائی زون قائم کرنےکےمتعلق قرداد کی منظوری کے بعد اس پرعملدرآمدکےلئے فوراسامنےآنےوالی امریکی انتظامیہ اب تک لیبیاپرحملہ کرنےوالے اتحاد کی قائد بھی ہے۔امریکی حکومت اگر چہ حملہ آور افواج کی قیادت کسی اورملک کے حوالے کرنےپرتیارہوگئی ہے لیکن مالی بحران اورحملہ آورممالک کی جانب سے یورینیم ملے ہتھیاروں کااستعمام مبصرین کے نزدیک اس کےلئے بڑے مسائل پیداکرسکتاہے۔
امریکی صحافی اورمصنف ڈیوڈلنڈورف کاامریکہ کی جانب سےیورینیم استعمال کی تردید کے متعلق کہناہے”ہمیں تاریخی حقائق کومدنظررکھناچاہئے،امریکا ماضی میں بھی یورینیم استعمال کرنےکےمتعلق جھوٹ بولتارہاہے،عراقی شہر فلوجہ میں یورینیم استعمال نہ کرنابھی ایساہی دعویٰ تھاجو غلط ثابت ہواہے۔ماضی کے تجربات کومدنظررکھتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ لیبیاپرکارروائی کے دوران قذافی فورسز کے ٹینکوں،بکتربند گاڑیوں اوردیگرآرمرڈ وہیکلز کوتباہ کرنےکےلئے ہیرئیرطیاروں میں اسے استعمال کیاجارہاہو”۔ان کاکہناتھا”میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ایسا کر رہے ہیں لیکن 30ملی میٹرقطر کی گن رکھنےوالے تھنڈربولٹس طیارے اگر سامنےلائے جاتے ہیں تو یقینی ہو گا کہ امریکا یورینیم ملے ہتھیاراستعمال کررہاہے۔‘‘
مضمون نگار : شاہد عباسی۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]