برصغیر کے مسلمانوں کے لیے وہ وقت بہت کڑا تھا جب ایک طرف انگریز اپنی حکمرانی کے نشے میں مست ان پر ہر طرح کے ظلم ڈھارہا تھا تو دوسری طرف ہندو بنیا سیکڑوں برس کی غلامی کا بدلہ چکانے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ جب ہندوﺅں اور انگریزوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب مسلمان تھک چکا ہے اور اس بے بس و بے کس مخلوق سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں تو انہوں نے اپنی خباثت ِباطنی کا آخری مظاہرہ شروع کردیا۔ ہر سمت سے شانِ رسول میں ہر روز نت نئی شکل میں گستاخی کی خبروں نے مسلمانوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ بجھی ہوئی راکھ تلے عشق و وفا کی وہ چنگاریاں ابھی سلگ رہی ہیں جو بھڑکیں گی تو سب گستاخوں کو اپنے ساتھ بھسم کردیں گی۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ عشقِ رسالت مآب ﷺ کی راہ میں ان غیور اہلِ ایمان نے نہ تو گھربار کو آڑے آنے دیا نہ ان کی بے بسی ان کا راستہ روک سکی، نہ یہ وقت کی عدالتوں، جیلوں اور ہتھکڑیوں سے گھبرائے۔ ایسے ہی خوش قسمت افراد میں ایک نام ’’غازی علم دین شہید ‘‘ کا بھی ہے جنہوں نے گستاخِ رسول کو جہنم رسید کرکے وہ کارنامہ انجام دیا جس پر رہتی دنیا کے مسلمان اُن پر نازکرتے رہیں گے۔ علامہ اقبال کو جب معلوم ہوا کہ ایک اکیس سالہ اَن پڑھ‘ مزدور پیشہ نوجوان نے گستاخِ رسول راجپال کو جرأت وبہادری کے ساتھ قتل کردیا ہے تو انہوں نے کہا تھا: ”اَسی گَلاں اِی کردے رہ گئے تےتَرکھاناں دَا مُنڈا بازی لے گیا‘‘(ہم باتیں ہی بناتے رہے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا۔) غازی علم دین 8 ذیقعدہ 1366ءبمطابق 4 دسمبر 1908ءکو لاہور میں متوسط طبقے کے ایک فرد طالع مند کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نجاری (بڑھئی) ان کا پیشہ تھا۔ طالع مند اعلیٰ پائے کے ہنرمند تھے۔ وہ علم دین کوگاہے گاہے اپنے ساتھ کام پرلاہور سے باہر بھی لے جاتے۔ بڑا بیٹا محمد دین تو پڑھ لکھ کر سرکاری نوکر ہوگیا لیکن علم دین نے موروثی ہنر ہی سیکھا۔ علم دین نے بچپن ہی میں بعض ایسے واقعات دیکھے جن کے نقوش ان کے دماغ پر ثبت ہوئے اور ان کی کردار سازی میں کام آئے۔ ماموں کی بیٹی سے منگنی تک علم دین کوگھر اورکام سے سروکار تھا۔ باہر جو طوفان برپا تھا اس کی خبر نہ تھی۔ اُس وقت انہیں یہ بھی علم نہ تھا کہ گندی ذہنیت کے شیطان صفت راجپال نامی بدبخت نے نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان کے خلاف ایک دل آزارکتاب ”رنگیلا رسول“ شائع کرکے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ حکومت کو راجپال کے خلاف مقدمہ چلانے کو کہا گیا، لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ عبدالعزیز اور اللہ بخش کو الجھاکر سزا دی گئی۔ الٹا چور سرخرو ہوا اور کوتوال کے ساتھ مل گیا۔ اخبارات چیختے‘ چلاّتے راجپال کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے۔ جلسے ہوتے‘ جلوس نکلتے لیکن حکومت اور عدل وانصاف کے کان پر جوں نہ رینگی۔ مسلمان دلبرداشتہ تو ہوئے لیکن سرگرم عمل رہے۔ دلّی دروازہ سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھا۔ یہاں سے جو آواز اٹھتی پورے ہندوستان میں گونج جاتی۔ علم دین ایک روز حسب معمول کام پر سے واپس آتے ہوئے دلّی دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے۔ انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ راجپال نے نبی کریم ﷺکے خلاف کتاب چھاپی ہے اس کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں۔ کچھ دیر بعد ایک اور مقررآئے جو پنجابی زبان میں تقریر کرنے لگے۔ یہ علم دین کی اپنی زبان تھی۔ تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ راجپال نے ہمارے پیارے رسول کی شان میں گستاخی کی ہے، وہ واجب القتل ہے، اسے اس شرانگیزی کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ علم دین گھر پہنچے تو والد سے تقریرکا ذکر کیا۔ انہوں نے بھی تائید کی کہ رسول کی ذات پر حملہ کرنے والے بداندیش کو واصلِ جہنم کرنا چاہیے۔ وہ اپنے دوست شیدے سے ملتے اور راجپال اور اس کی کتاب کا ذکرکرتے۔ لیکن پتا نہیں چل رہا تھا کہ راجپال کون ہے؟ کہاں ہے اُس کی دکان؟ اورکیا ہے اس کا حلیہ؟ شیدے کے ایک دوست کے ذریعے معلوم ہوا کہ شاتمِ رسول ہسپتال روڈ پر کتابوں کی دکان کرتا ہے۔ بیرون دہلی دروازہ درگاہ شاہ محمود غوثؒ کے احاطہ میں مسلمانوں کا ایک فقیدالمثال اجتماع ہوا، جس میں عاشقِ رسول، امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒنے بڑی رقت انگیز تقریر کی۔ علم دین اپنے والد کے ہمراہ اس میں موجود تھے۔ اس تقریر نے بھی اُن کے دل پر بہت اثرکیا۔ اُس رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے، انہوں نے کہا: ”تمہارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی ہورہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اٹھو جلدی کرو۔“ علم دین ہڑبڑا کر اٹھے اور سیدھے شیدے کے گھر پہنچے۔ پتا چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے راجپال کا صفایا کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے، کیونکہ دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے دونوں نے فیصلہ کیا۔ تین مرتبہ علم دین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔ علم دین ہی شاتمِ رسول کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے۔ انارکلی میں ہسپتال روڈ پر عشرت پبلشنگ ہاﺅس کے سامنے ہی راجپال کا دفتر تھا۔ معلوم ہوا کہ راجپال ابھی نہیں آیا۔ آتا ہے تو پولیس اس کی حفاظت کے لیے آجاتی ہے۔ اتنے میں راجپال کار پر آیا۔ کار سے نکلنے والے کے بارے میں کھوکھے والے نے بتایاکہ یہی راجپال ہے، اسی نے کتاب چھاپی ہے۔ راجپال ہردوار سے واپس آیا تھا، وہ دفتر میں جاکر اپنی کرسی پر بیٹھا اور پولیس کو اپنی آمد کی خبر دینے کے لیے ٹیلی فون کرنے ہی والا تھا کہ علم دین دفترکے اندر داخل ہوئے۔ راجپال نے درمیانے قدکے گندمی رنگ والے جوان کو اندر داخل ہوتے دیکھ لیا لیکن وہ سوچ بھی نہ سکا کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے۔ پلک جھپکتے میں چھری نکالی، ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور راجپال کے جگر پر جالگا۔ چھری کا پھل سینے میں اترچکا تھا۔ ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راجپال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جاپڑا۔ علم دین الٹے قدموں باہر دوڑے۔ راجپال کے ملازمین نے باہر نکل کر شور مچایا: پکڑو پکڑو۔ مارگیا مارگیا۔ علم دین کے گھر والوں کو علم ہوا تو وہ حیران ضرور ہوئے لیکن انہیں پتا چل گیا کہ ان کے نورِچشم نے کیا زبردست کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ان کا سر فخرسے بلندکردیا ہے۔ اس قتل کی سزا کے طور پر 7 جولائی 1929ءکو غازی علم دین کو سزائے موت سنادی گئی جس پر 31 اکتوبر1929ءکو عمل درآمد ہوا۔ ان کے جسدِ خاکی کو مثالی اور غیرمعمولی اعزاز واکرام کے ساتھ میانی صاحب قبرستان لاہور میں سپرد ِ خاک کردیا گیا، لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں ان کا نام ناموس رسالت پرکٹ مرنے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
فَمِنْھُمْ مَنْ قَضَیٰ نَحْبَہُ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّنْتَظِرْ
باریابی جو ہو حضور مالک تو کہنا کہ کچھ سوختہ جاں اور بھی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔ ایسےتمغوں کے طلب گار وہاں اور بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔