کچھ عرصہ قبل پاکستان کےمؤقر ترین اخبار کے ادبی صفحہ پر نظر ڈالنے کے کا اتفاق ہوا۔ ایک نظم کی پہلی سطر دیکھ کر ہی طبیعت صاف ہوگئ ۔
” میری جانِ من”
اردو اور فارسی کے اس حسین امتزاج کودیکھ کر بے اختیار جامعہ کراچی کے اپنے ایک دوست یاد آئے جن کا تکیہ کلام تھا ” پریشر کا دباؤ بہت ہے”۔ یہ اصطلاح و ہ بین الاقوامی سیاست کے بیرونی معاملات سے لے کر اپنے معدےکے اندرونی معاملات تک استعمال کرتےتھے۔ہم لوگ ازراہ تفنن کہتے ۔”ساحل سمندر کے کنارے ،شب قدر کی رات کو، سنگ مرمر کے پتھر پر، آب زمزم کا پانی پیتے ہوئے پریشر کا دباؤ بہت تھا” ۔آج کل وہ ایک اردوٹی چینل سے وابستہ ہیں ۔ مگر پریشر کا دباؤ ابھی بھی ان کے پیچھے ہے۔ اور ان کے کیا پورے پاکستانی میڈیا کے پیچھے ہے ۔۔
بریکنگ نیوز کی وہ دوڑ لگی ہوئی ہے کہ الاماں الحفیظ۔کسی ٹی وی کی وین اگر پیٹرول ڈلوانے بھی کہیں رک جاتی ہے تو پیچھے دوسرے چینلوں کی گاڑیوں کی لائن لگ جاتی ہے کہ مبادا کہیں کچھ چھوٹ نہ جائے۔
انگریزی کا مقولہ ہے کے سچ جنگ کا پہلا شکار ہوتا ہے ۔پاکستانی صحافت میں سچ “بریکنگ نیوز” کی دوڑ کا پہلا شکار ہے۔ ظالموں نے چند برسوں پہلے فرازکورحلت سے پہلے ہی مار ڈالا تھا۔ بے صبری کے اسی عالم میں وکی لیکس کےثابت و سالم انڈوں سے خود ہی خیالی بچے برآمد کرنےلگے جس سے بین الاقوامی طور پر خاصی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کچھ عرصے پہلے کراچی میں ایک نجی کمپنی کا طیارہ ایک فوجی ادارے کے احاطے میں جا گرا تھا۔سارے نیوز چینل پہلے پہل تو جہاز کے گرنے کے صحیح مقام کا تعین نہ ہونے کے باوجود غلط مقام رپورٹ کرتے رہے۔ ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر سے جب اینکر نے سوال کیاکہ کیا علاقے کوعام لوگوں کے لئے بند کردیا گیا ہے تو بجائے اس کے وہ کہتا بھائی ابھی تو میں ناشتہ کر کے گھر سے باہر بھی نہیں نکلا ۔میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ جہاز ہے کہاں۔ فرمانے لگے ہاں جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ایسے موقع پر علاقے کو بند کردیا جاتا ہے ۔فلاں کردیا جاتا ہے۔ فلاں ہوا کرتا ہے۔
الفاظ کا چناؤ اور ادائیگی تو ایک الگ ہی کہانی ہے جس کے لئے ایک الگ مضمون درکار ہے۔پاکستان کے اکثر صحافی پڑھے لکھے نہیں بلکہ صرف لکھے ہوئے ہیں ۔
اپنے ایک اور صحافی دوست سے جب اپنے ان تحفظات کا اظہار کیا تو اپنے مخصوص انداز میں بولے ۔”یار باس ۔ اللہ معاف کرے ۔ بڑا کچرا ہے “ ۔ ایک شعر جو سیاست کے لئے لکھا گیا تھا آج کل کی صحافت پر بھی پور ا اترتا ہے۔
میرے وطن کی “صحافت” کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں