’’ايک مملکت !!! ایک انقلاب!!! کئی دعوے دار !!! ۔۔۔ کیا واقعی انقلاب آجائے گا؟؟؟‘‘
آج کل پورے پاکستان میں مستقبل قریب میں آنے والا انقلاب زیر بحث ہے۔ اس بحث کی ابتداءایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے جاگیرداروں‘ لٹیروں اور جرنیلوں کے خلاف بیان سے ہوئی پھر میاں نواز شریف بھی انقلاب کی باتیں کرنے لگے۔ کیا واقعی پاکستان میں پرو۔ پاکستان (قوم کے مفاد میں) انقلاب دستک دے رہا ہے۔ مختلف طبقے کے افراد سے رابطہ قائم کیا گیا تو عوام کی اکثریت ایسے انقلاب کے لیے دعا مانگ رہی ہے۔ ”اللہ تعالیٰ امام خمینی جیسا لیڈر بھیجے۔ ملک میں صفائی کی ضرورت ہے۔“ اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار عام لوگوں نے کیا۔ آنے والے انقلاب کی صورت کیا ہوگی؟ اس کی رہنمائی کون کرے گا عوام کو متحرک کرنے کے لیے فنڈز کون دے گا؟ اور کیافضا انقلاب کے لیے سازگار ہی؟ یہ سوالات ہر محب وطن شہری کے ذہن کو جھنجھوڑ رہے ہیں ۔ مہنگائی‘ بیجا ٹیکس‘ بیروزگاری‘ حکمرانوں اور سرکار ملازمین کی لوٹ کھسوٹ حکمرانوںکی عیاشیاں۔ نااہلی‘ بزدلی‘ بصیرت سے محرومی‘ ملک کو خانہ جنگی اور بلاضرورت بیرونی قرضوں کے جال میں پھنسانے۔ سیلاب سے بچاﺅ کے لیے مناسب انتظام نہ کرنے بلکہ مجرمانہ غفلت کا ارتکاب اور بااثر زمینداروں کی زمینوں کو بچانے کے لیے مختلف مقامات پر بند توڑنے جیسے واقعات نے عوام کو مشتعل کرکے خونیں انقلاب کی راہ ہموار کردی ہے۔سیلاب مہنگائی اور حکمرانوں کی بدعنوانی کے مارے ہوئے ان بپھرے عوام کو اسلام آباد پہنچانے کے لیے فنڈز اور اسکیم کی ضرورت بھی ہے۔ انقلاب فرانس کے تمام انتظامات یہودی ساہوکاروں کے ایک بینک نے کیے جس کی قیادت بادشاہ کے کسی سودے پر ناراض تھی۔ بھٹو کے خلاف 1977 ءکی تحریک میں ایرانی سفارت خانہ کے ذریعے امریکی ڈالر استعمال ہوئے۔ انقلاب کے لیے فضا تو سازگار ہے لیکن پس پردہ قوتیں نظر نہیں آتیں۔انقلاب دارالحکومت کے بغیر برپا کرناناممکن ہے۔ کراچی ‘ پشاور‘ لاہور جیسے شہروں میں لاکھوں افراد اسمبلی کی عمارت سیکریٹریٹ یا گورنر ہاﺅس پر قبضہ بھی کرلیں تو انقلاب نہیں آسکتا۔ انقلاب صرف اسلام آباد پر قبضہ کے ذریعے آسکتا ہے۔ اسلام آباد کی طرف دوبارہ وکلاءکے لانگ مارچ سے انقلاب رونما ہوسکتا تھا۔ لیکن اعتزاز احسن اور میاں نواز شریف نے انقلاب کو ناکام کرنے میں جو کردار اد اکیا تاریخ اس کو نہیں بھلاسکتی۔ یوکرائن‘ نیپال اور کرغستان میں انقلاب دارالحکومت میں پارلیمنٹ اور ایوان حکومت پر قبضہ سے برپا ہوا۔انقلاب کے لیے بہترین فضا موجود ہے لیکن رہنما نہیں۔ موجودہ سیاسی قیادت پر عوام کو اعتماد نہیں۔ پھر انقلاب کی قیادت کون کرے گا؟ قوم اور ملکوں کی قسمت کا دارو مدار واقعات پر ہوتا ہے اور واقعات کی بنیاد اسباب ہوتے ہیں اور اسباب کے لیے نظرنہ آنے والی قوتیں کام کررہی ہوتی ہیں۔ ایک چھوٹا سا واقعہ بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔1977 ءمیں جنرل ضیاءالحق کی جگہ جنرل جہانزیب ارباب اور 1999 ءمیں پرویز مشرف کی جگہ جنرل ضیاءالدین بٹ کو لگانے کی کوشش نہ کی گئی ہوتی تو تاریخ مختلف ہوتی۔ ایک فوجی یونٹ کے سربراہ کرنل جمال ناصر مصر کے دارالحکومت میں جنرل نجیب کے خلاف کامیاب انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ بنگلہ دیشی فوج کے چند جونیئر افسران شیخ مجیب الرحمن سے بنگلہ دیش کو پاک کرنے میں کامیاب ہوئے وہ خود حکومت میں نہ آئے لیکن حکومت سویلین کو منتقل کردی۔ الطاف حسین نے انقلاب کے لیے محب وطن جنرلوں کو پکارا ہے حالات کیا ہوں گی؟ کچھ خبر نہیں۔ البتہ انقلاب آرہا ہے۔
مضمون نگار:ایک بندہ خدا
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]