”ہندو دہشت گردی“ کی اصطلاح اتنی ہی نامناسب اور خطرناک ہے جتنی ”اسلامی دہشت گردی“ کی اصطلاح۔ جس میڈیا نے ”اسلامی دہشت گردی“ کی اصطلاح کو پھیلایا تھا اب اس نے یہ نئی اصطلاح اختراع کی ہے۔ یہ اصطلاح یوں بھی درست نہیں کہ ہمارا ہندو بھائیوں سے روز واسطہ رہتا ہے اور ہمارا تجربہ ہے کہ عام ہندو دہشت گرد تو کیا جنگجو بھی نہیں ہوتا۔ ہزارہا برس سے صبر و تحمل ‘ عدم تشدد اور صلح کل ان کا وطیرہ رہا ہے۔ اس لیے ”ہندو دہشت گری“ کی اصطلاح عام ہندوﺅں کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ یہ اصطلاح جنہوں نے اختراع کی ہے یا تو وہ نادان ہیں یا حددرجہ کے عیار ۔ یہ خیال بھی حقائق کے خلاف ہے کہ دہشت گردی کہ وہ چہرے جنہوں نے ”ہندو توا“ کا نقاب اوڑھ رکھا ہے‘ پہلے سے نامعلوم تھے اور بس ابھی سامنے آئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چہرے عرصہ دراز سے پہچانے جارہے تھے‘ ان کی ملک و قوم دشمن سرگرمیاں پہلے ”مسلم کش“ فسادات کی صورت میں مسلسل سامنے آرہی تھیں۔ پھر03- 2002 ءمیں جب سے بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا مختلف سراغ رساںان کی طرف ہی اشارے کررہے تھے‘ یہ بات دوسری ہے کہ قانون کے ہاتھ ان کی گردنوں سے دور رہے۔ قانون کے محافظوں کی دلچسپی اصل مجرموں کو گرفت میں لینے کے بجائے بین الاقوامی سطح پر پڑوسی ممالک کو گھیرنے اور امریکا و اسرائیل کی پیروی میں ”مسلم دہشت گردی“ کے مفروضے کو تقویت پہنچانے میں زیادہ رہی۔ افسوس یہ کہ اس معاملے میں ایڈوانی ہوں یا پاٹل مطلق کوئی فرق نہیں رہا۔ آپ سوال کرسکتے ہیں کہ اس دہشت گردی کو پھر کیا کہیں جس کو ”ہندو دہشت گردی“ کہا جارہا ہے تو میرا جواب ہے کہ یہ ہندو دہشت گردی نہیں ہے بلکہ صرف ”سنگھی دہشت گردی“ ہے۔ اس کا آغاز 1925 ءمیں اور اس کا پہلا اظہار 1927 ءمیں ہوا۔ سنئے کیا کہتے ہیں سنگھ کے ایک سرکردہ لیڈر دتوپنت ٹھینگڑی جی اپنی تقریر میں جو ”ہندو مانسکتا“ کے عنوان سے آر ایس ایس کے سروچی پرکاش سے شائع ہوئی ہے۔”1927 ءمیں ہندو۔ مسلم دنگا ہوا۔ ان دنگوں میں ہندوﺅں نے اتنی مار دی مسلمانوں کو کہ مسلمان سر نہیں اٹھا سکا۔ یہ اسی لیے ممکن ہوسکا کہ 1925ءمیں جو سنگھ کا آغاز ہوا تو وہ نوجوان لوگوں کا گٹ تھا۔ اسی گٹ کی بدولت مسلمانوں کو اتنی مار پڑی.... یہ سب جانتے تھے کہ یہ جو ڈاکٹر جی نے اکھاڑا کھڑا کیا تھا ‘ یہ مار اسی کی بدولت ہوئی ہے تو یہ ڈنکے کی چوٹ پر کہنا چاہیے‘ لیکن ڈاکٹر ہیڈ گواڑ جی کہہ رہے ہیں کہ جو وجے ہندوﺅں کو ناگپور میں ہوئی وہ ہندو سماج کے پراکرم کے کارن ہوئی۔“ 1990 ءمیں پنجاب میں آر ایس ایس کارکنوں کے ایک کیمپ میں کی گئی یہ زہر آلود تقریر طویل ہے‘ جس کو آکاش وانی نے محفوظ رکھا اور طباعت کے لیے فراہم کیا۔ اس میں سنگھ کی ذہنیت اور طریقہ کار کو کھل کر بیان کیا گیا ہے جو اس اقتباس سے بھی واضح ہے۔ مقصد مسلمانوں کو مارنا اور پھر اپنے گناہ کو خود قبول کرنے کے بجائے اس کو ”پوری ہندو قوم“ کی بہادری ‘پر اکرم ‘ حوصلہ مندی قرار دینا اس کا طریقہ روز اول سے رہا ہے۔ وہ اس ذہنیت کو اور عمل کو ”قوم پرستی“ اور اس طریقہ کار کو ”دیش بھگتی“ کا نام دے کر عوام کو ورغلاتے رہے ہیں۔ میں یہ بات نظریاتی طور سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اس کی شہادتیں موجود ہیں کہ نام نہاد ہندو دہشت گردی کے جتنے بھی گناہ اب تک منظر عام پر آئے ہیں وہ سب اسی سنگھ پریوار کے سپوتوں کے کرتوت ہیں۔ ہندو توا کی نقاب کے پیچھے چھپے ہوئے ان سنگھی چہروں کو آسانی سے پہچانا جاسکتا ہے۔ ان کے لٹریچر میں‘ ان کی شاکھاﺅں میں اور ان کے طور طریقوں میں نفرت اور جنگجوئیت کی تلقین کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔ مہاراشٹر کے سابق آئی جی پولیس ایس ایم مشرف نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”کُرکرے کے قاتل کون؟“ میں اس ذہنیت کی قلعی کھول دی ہے اور دلائل کے ساتھ اس کی حکمت عملی کو واضح کیا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہندوﺅؤں کو ورغلا کر اور ہندو قومیت کے نام پر اکسا کر ملک میں ایک ایسی فضا بنائی جائے جس میں ہندو توا کے نام پر پھر سے برہمنی نظام بحال کیا جاسکے۔ ”خالص ہندو راشٹرا“قائم کیا جاسکے‘ جس میں غیر ہندو تمام حقوق سے محروم صرف خدمت گار یا غلام بن کر رہیں اور ہندوﺅں پر بھی برہمنیت کو بالا دستی حاصل رہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر 1927 ءسے 2004ءتک تسلسل کے ساتھ مسلم کش فسادات کرائے جاتے رہے۔ جن کا نقطہ عروج 1992ءمیں بابری مسجد کے انہدام اور 2002 ءمیں گجرات میں مسلم کش کی صورت میں سامنے آیا۔ آر ایس ایس کے اس ایجنڈے کو روبہ عمل لاے میں سنگھی ذہنیت کی انٹیلی جنس افسران ‘سول و پولیس حکام‘ میڈیا اور بلاتخصیص پارٹی و نظریہ وزیروں اور سیاست دانوں کا بھی اہم رول رہا ہے۔ چنانچہ ا س میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اس معاملے میں یکے بعد دیگرے حکومتوں نے چشم پوشی سے کام لیا۔ 2002 ءکے گجرات فسادات کی پوری دنیا میں شدید مذمت ہوئی اور سنگھ پریوار پوری طرح بے نقاب ہوگیا۔ چنانچہ فسادات کی حکمت عملی کو بدلنا ضروری ہوگیا۔ اسی اثناءمیں ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے نام پر افغانستان اور عراق پر امریکی فوجی یلغار ہوئی اور صیہونیوں کے زیر کنٹرول عالمی میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف نفرت و دہشت کی فضا بنانی شروع کی جس سے سنگھیوں نے شہہ پائی۔ چنانچہ فسادات کی جگہ اب دہشت گرانہ حملوں کا حربہ اختیار کیا گیا۔ جن شوریدہ سروں کے لیے فسادات بھڑکا کر عورتوں اور بچوں کو زندہ جلانا مارنا‘ حاملہ عورتوں کے شکم چیر کر بچے کو نیزوں پر اچھالنا ایک دلچسپ مشغلہ ہوان کے لیے بم دھماکے کرکے بے قصور لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلنا کون سا بڑاکام ہی؟ چنانچہ جگہ جگہ بم دھماکے کیے گئے اور مقامی پولیس و انتظامیہ‘ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور میڈیا کی ملی بھگت سے ان کے لیے مسلمان نام کی تنظیموں اور افراد کے ناموں کو اچھال کر بھولے بھالے ہندو عوام کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جڑوں کو مضبوط کیا گیا۔ اس فضا کو مزید مستحکم کرنے کے لیے متوقع دہشت گردانہ حملوں کی افواہیں شد و مد کے ساتھ پھیلائی گئیں اور الیکٹرانک میڈیا نے ان تمام خبروں کو اس طرح مشتہر کیا جیسے آنکھوں دیکھی بیان کی جارہی ہو۔ ان سب کے پس پشت بس ایک ہی ہاتھ اور ایک ہی دماغ کارفرما رہا ہے اور وہ ہے سنگھی ہاتھ اور سنگھی دماغ۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اس کو ”ہندو دہشت گردی“ نہیں بلکہ ”سنگھی دہشت گردی“ کہنا چاہیے۔ ٹی وی اور اخبارات میں ”سنگھی دہشت گردی“ اس لیے نہیں کہا جارہا ہے اس سے ہندو عوام میں سنگھیوں کی پول کھل جائے گی اور انہوں نے اپنی جو شبیہ عوام کے ذہنوں میں اتار رکھی ہے وہ مسخ ہوجائے گی۔ اس کو ”ہندو دہشت گردی“ اس لیے کہا جارہا ہے کہ ہندوؤﺅں اور مسلمانوں کے درمیان جو خلیج پیدا کردی گئی ہے وہ کم نہ ہونے پائے۔ اسی دوران دہشت گردی کے نام پر فرضی انکاﺅؤنٹروں میں مسلمانوں کو مارے جانے کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر بم دھماکوں اور انکاﺅؤنٹروں کے حوالے سے میڈیا کے ذریعہ جس پر پہلے ہی سنگھی ذہنیت قابض ہے ایسی فرضی کہانیاں پھیلائی گئیں جس سے ہندو عوام کے دلوں میں ”مسلم دہشت گردی“ کا ہوا کھڑا ہوجائے۔ گجرات سے ایک ایس ایم ایس مہم شروع ہوئی۔"Every Muslim is not a terrorist but every Terrorist is a Muslim"” ہر مسلمان تو دہشت گرد نہیں ہے‘ لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ضرور ہے“ اور اس جھوٹ کو پھیلانے میں بی جے پی کے چوٹی کے رہنما راج نارتھ سنگھ‘ لال کرشن ایڈوانی اورنریندر مودی وغیرہ بھی پیش رہے۔ گزشتہ پارلیمانی الیکشن سے قبل بنگلور میں پارٹی کے قومی اجلاس (ستمبر 2008ء) میں اس وقت کے صدر راج ناتھ سنگھ نے بڑے طمطراق کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ پارٹی اقتدار میں آئی تو دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی۔ آج جب سنگھی دہشت گردوں کے گرد قانون کا شکنجہ کستا جارہا ہے تو سارے لیڈر بوکھلائے ہوئے ہیں۔ اشاروں اشاروں میں ان دھماکوں کا حوالہ دیا جاتا تھا جن میں ”تحقیقاتی ایجنسیوں“ نے بغیر کسی جانچ پڑتال محض گمان کی بنیاد پر مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ ان نعروں کا مقصد مسلم مخالف فضا سازی کے ذریعہ بھولے بھالے ہندو عوام کا ووٹ حاصل کرنا تھا۔ آج جب ہم ”ہندو دہشت گردی“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس سے بھی مقصد سنگھ پریوار کا ہی پورا ہورہا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اس کو صرف اور صرف ”سنگھی دہشت گردی“ ہی کہنا چاہیے۔
دہشت گردی کے وہ واقعات جن میں حال ہی میں کچھ گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ کچھ لوگوں سے پوچھ گچھ ہوئی ہے‘ اس حقیقت کو آشکارا کررہے ہیں کہ یہ خالص سنگھی دہشت گردی ہے۔”میل ٹوڈے“(18جولائی) نے دہشت گردی میں ماخوذ افراد کے خاکے شائع کیے ہیں۔ میں یہاں صرف چند وہ نام گنواتا ہوں جو اب تک بم دھماکوں اور دہشت گردانہ حملوں میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان میں ایک بھی نام ایسانہیں جس کا تعلق سنگھ پریوار اور سنگھ آئیڈیالوجی سے نہ رہاہو۔ ان میں سرفہرست تو نام اندریش کمار عرف اندریش جی کا ہے۔ ان کا شمار سنگھ کے پالیسی سازوں میں ہوتا ہے۔ سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے قریبی معتمد اور سنگھ کی مجلس عاملہ کے رکن ہیں۔ اندریش جی کے ایک خاص قریبی پرچارک دیوبندر گپتا اجمیر کی درگاہ شریف اور حیدرآباد کی مکہ مسجد کے دھماکوں میں ماخوذ ہیں۔ تفتیشی ایجنسیاں سنیل جوشی سے بھی اندریش جی کے رشتوں کی جانچ پڑتال کررہی ہیں۔ جوشی بھی آر ایس ایس کے پرچارک تھے اور مکہ مسجد اور درگا ہ شریف دھماکوں میں ماخوذ تھے۔ جن کو پُراسرار طریقے سے قتل کردیا گیا۔ حال ہی میں دو بڑے نام اشوک وارشنی اور اشکو بیری کے نام سامنے آئے ہیں۔ وارشنی جھاڑکھنڈ ریاست کے پرانت پرچارک تھے اور بیری مرکزی عاملہ کے رکن ہیں۔ ان دونوں پر دھماکوں میں معاونت اور ملزموں کو پناہ دینے کا قوی شک ہے۔ ان کو حیدرآباد طلب کرکے سی بی آئی نے طویل پوچھ گچھ کی ہے اور ان کے اور اندریش جی کے نام خبروں میں آنے کے بعد سنگھ پریوار کے لوگوں نے ”آج تک“ کے دفتر پر دلی میں پُرتشدد مظاہرہ کیا۔ جس کو آر ایس ایس اور بی جے پی نے حق بہ جانب ٹھہرایا اور دلیل یہ دی کہ آر ایس ایس ایک ”قوم پرست“ تنظیم ہے اس کے کارکنوں کے بارے میں اس طرح کی خبریں نشر کرنا ہندوستان کی توہین ہے۔ ایک نام بی جے پی کے سابق ایم پی بی ایل شرما پریم بھی آرہا جو مبینہ طور پر نائب صدر جمہوریہ’’ حامد انصاری‘‘ کے قتل کی سازشی میٹنگ میں شریک تھا۔ ان بڑے لیڈروں اندریش جی ‘ وارشنی ‘ بیری اور پریم کے نام آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردانہ کارروائیاں‘ بم دھماکے وغیرہ چند سنگھیوں کے ذاتی کرتوت نہیں بلکہ ان کی حکمت عملی تیارکرنے میں چوٹی کے دماغ بھی شامل ہیں۔ اندریش جی کا خاص دیویندر گپتا آر ایس ایس کا پرچارک ہے۔ اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس کے رام چند کال سانگرا کا نام بھی آتا ہے جو مکہ مسجد اور مالی گاﺅں کے دھماکوں میں ماخوذ ہے۔ ان کا تعلق ”ابھینو بھارت“ نام کی تنظیم سے بھی ہے‘ جس سے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر‘ کرنل پرساد پروہت اور سوامی دیانند پانڈے کے نام وابستہ ہیں۔ یہ سب مالی گاﺅں بم دھماکہ کیس میں ملزم ہیں اور جیل میں ہیں۔ سنگھی دہشت گردوں میں ایک نا م میجر رمیش پانڈے کا ہے۔ فوج سے 1988 ءمیں ریٹائر ہونے کے بعد وہ بمبئی میں بی جے پی کے سابق فوجیوں کی تنظیم کا سربراہ رہا۔ اس کے جوٹیپ مہاراشٹرا اے ٹی ایس کو ملے ہیں ان میں وہ ”خالص ہندو راشٹر“ کے قیام کی وکالت کرتا ہوا سنا جاسکتا ہے۔ مالی گاﺅں بم دھماکے کی اصل ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر بھی بی جے پی کی طلباءتنظیم اور خواتین تنظیم سے وابستہ رہی۔ راج ناتھ سنگھ سمیت بی جے پی کے کئی بڑے لیڈروں تک اس کااثر رسوخ تھا۔ اس کی گرفتاری پر ایڈوانی جی تک تلملا اٹھے تھے اور سنگھ پریوار کے لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ ایک اہم نام جتن چٹرجی عرف سوامی اسیم آنند کا بھی ہے جو سنگھ پریوار کا محترم لیڈر ہے۔ وہ کئی بم دھماکوں کا اصل محرک اور اصل دماغ سمجھا جاتا ہے‘ گجرات کے ضلع ڈانگ میں روپوش ہے اور مودی کی پولیس اس کی گرفتاری میں مدد کرنے کو آمادہ نہیں۔ رام چندر کال سانگرا‘ سندیپ ڈانگ بھی بم دھماکوں میں مطلوب ہیں اور فرار ہیں۔ یہ بھی آر ایس ایس سے وابستہ ہیں۔ راکیش دھواڑے اور اشوک کنتے بم سازی میں ماخوذ ہیں اور دونوں آر ایس ایس کے کارکن ہیں۔ اجمیر شریف بم دھماکے کا ملزم لوکیش شرما بھی سنگھی ہے۔ احمد آباد بم دھماکوں کے تار بھی انہی لوگوں سے جڑے ہیں جن کا تعلق اسی پریوار سے ہے۔ دھماکوں کے دیگر واقعات میں سنگھ پریوار کی تنظیموں بجرنگ دل اور مختلف سیناﺅں کے کارکنوں کے نام بھی آئے ہیں۔ کانپور میں 18 اگست 2008 ءکو بجرنگ دل کے ایک سرگرم کارکن کے گھر میں دھماکا ہوا جس میں 2 بجرنگی بھونپدر اور راجیو مارے گئے۔ گھر سے بم سازی کا بہت سا سامان بھی نکلا۔ اس سے قبل 26 مئی 2006 ءکوناتدیڑ میں لکشمن گونڈیار کے گھر کے اندر بم پھٹا جس میں اس کا لڑکا نریش اور اس کا ساتھی ہمانشو پانسے ہلاک اور چار افراد ماروتی داگھ‘ یوگیش ‘ دیش پانڈے‘ گوروراج ٹوپٹے اور ایل پانڈے زخمی ہوگئے۔ یہ سب بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے سرگرم کارکن ہیں اور بم سازی میں مصروف تھے۔انہی ملزموں نے محمدیہ مسجد پر بھی (نومبر 2003ء) قادریہ مسجد جالنہ (اگست 2004 ء) اور معراج العلوم مدرسہ و مسجد پور نہ ضلع پر بھنی (اگست2004ء) کے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا اقرار کیا۔ مگر پولیس نے ان کے خلاف مقدمہ میں دلچسپی نہیں لی جو سنگھیوں نے عدالتوں‘ وکیلوں اور انتظامیہ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے تمام ملزمان کو ضمانت پر رہا کرالیا۔ اسی طرح دیگر بم دھماکوں میں بھی اسی پریوار کے کارکن مشتبہ ہیں۔
غرض یہ ہے کہ ہندوستان میں دہشت گردانہ بم دھماکوں کے سارے سلسلے اسی سنگھی پریوار سے جاکر مل جاتے ہیں۔ یہ باتیں کچھ پردہ را ز میں نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ تفتیشی ایجنسیوں اور حکومتوں کے ذمہ داروں کے علم میں رہی ہیں۔ ہم تک کچھ ہی خبریں پہنچتی ہیں اور وہ بھی ذہن سے نکل جاتی ہیں۔ لیکن مسٹر مشرف نے ان سب کو بڑی سلیقے سے اپنی کتاب (کرکرے کے قاتل کون؟) میں جمع کردیا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ سنگھی ذہنیت ہمارے قومی نظام حکومت اور سیاست کے گلیاروں میں دور تک سرایت کرچکی ہے۔ اسی لیے اصل مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے تھوک میں مسلمانوں کو گرفتا کیا جاتا رہا ہے۔ ان سارے کالے کرتوتوں کا مقصد ہندوستان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو وسیع کرنا اور عام ہندو بھائیوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف خوف و نفرت کے جذبات کو بھڑکا کر ایسا ماحول تیار کرنا ہے جس سے وہ مخصوص ذہنیت جس کی پرورش 1925 ءسے آر ایس ایس کررہی ہے ملک پر پوری طرح حاوی ہوجائے اور ہندوستان میں ویسی ہی (برہمنی) آمریت قائم ہوجائے جیسی ہٹلر نے جرمنی میں‘ مسولینی نے اٹلی میں‘ اسٹالن نے روس میں قائم کی تھی اور جیسی صیہونیوں نے اسرائیل میں قائم کر رکھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا باشعور طبقہ ان کا آلہ کار بن جائے گا اور دہشت گردی کو خاص اس ٹولے سے وابستہ کرنے کے بجائے جو اس کے لیے اصل ذمہ دار ہے کبھی ”مسلم دہشت گردی“ اور کبھی ”ہندودہشت گردی “ کے نام سے موسوم کرکے ہندو مسلم خلیج کو بڑھانے میں معاون بن جائے گا؟ ملک میں اب تک ہونے والے تمام بم دھماکوں کی مشترکہ جانچ اور قومی سطح کی سازش کے طور پر کی جانی چاہیے اور تمام ملزمان پر درحقیقت آئینی طور سے قائم حکومت کے خلاف سازش اور قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے جرم میں غداری کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے تاکہ ان کے چہروں پر پڑی ہوئی قوم پرستی اور وطن پرستی کے نقاب اتر جائے اور ان کے اصل چہرے سامنے آجائیں۔
بشکریہ : ماہنامہ ملی اتحاد‘ دہلی
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]