(روحِ فیض سے معذرت کے ساتھ۔۔۔)
ابھی کل کی بات ہے ، ہمارے ایک اچھے سے دوست کے دو صاحبزادے فیض کا کلام لے آئے۔ اپنے اسکول کے مقابلے "نظم خوانی" میں یہ کلام انہیں سنانا تھا۔ کہنے لگے :
انکل ، یہ ذرا سمجھا دیں ہمیں۔ اگر سمجھ میں آ جائے تو یاد بھی جلد ہو جائے گا۔
صاحب۔ ہم نے بہت کوشش کی۔ عرصہ ہوا ادبِ لطیف (اور وہ بھی ترقی پسندانہ) سے دوری اختیار کئے۔ مگر پھر بھی جیسے تیسے کر کے سمجھا دیا۔اس تشریح پر فیض کی روح تڑپ اٹھی ہو کہ پھڑک اٹھی ہو ، یہ تو نہیں پتا ۔۔۔ لیکن مداحینِ فیض سے معذرت خواہ ہیں اگر کچھ اونچ نیچ محسوس ہو۔
لیجئے ۔۔۔ شرحِ فیض ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔
موتی ہو کہ شیشہ ، جام کہ دُر
جو ٹوٹ گیا، سو ٹوٹ گیا
کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے
جو ٹوٹ گیا ، سو چھوٹ گیا
پیارے بچو ! شاعر کہتا ہے کہ جو تم نے ابھی ابھی اپنے ابو کو پانی پلانے کے لیے گلاس اٹھایا تھا تو دراصل ذرا بےدھیانی میں ہاتھ بڑھایا تھا لہذا شیشہ کا گلاس اگر نیچے گر کر ٹوٹ گیا ہے تو سمجھو کہ وہ گیا بس گیا۔ کراکری کی رفاقت چھوڑ گیا۔ تم چاہو تو انا للہ پڑھ سکتے ہو۔ مگر تمہارا رونا بےفائدہ ہے کیونکہ دانا کہتے ہیں کہ آنسو بہانے سے ٹوٹے گلاس ہی نہیں جڑتے بلکہ ٹوٹے دل بھی نہیں جڑتے۔
تم ناحق ٹکڑے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو
دیکھو بچو ! ویسے تو ٹوٹے ہوئے گلاس کے ٹکڑے چننا نوکر کا کام ہوتا۔ پیارے پچوں اور معصوم بالغوں کا یہ کام نہیں۔ ہاں کبھی کبھی بچوں کو کھیل کے لیے کانچ کے رنگین ٹکڑے چاہئے ہوتے ہیں تو ذرا دیکھ سنبھال کر چننا چاہئے مبادا کہیں مزید کوئی اور گلاس نہ توڑ بیٹھیں۔ تیسرے مصرعے میں جو "مسیحا" کا ذکر ہے یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں۔ اصل میں یہ شاعر لوگوں کے ایک مرغوب اور پسندیدہ آدمی کا نام ہے۔ جہاں ردیف قافیہ فٹ بیٹھتا ہے تو اسے بلا لیتے ہیں۔
ناداری، دفتر، بھوک اور غم
ان سپنوں سے ٹکراتے رہے
بے رحم تھا چومکھ پتھراؤ
یہ کانچ کے ڈھانچے کیا کرتے
میرے بہادر بچو ! دیکھو کبھی کبھی تم نے غور کیا ہوگا کہ جب کسی مہینے کی آٹھ تاریخ کو بھی ابو دفتر سے تھکے ماندے شانے ڈھلکائے آتے ہیں اور تمہاری ممی ان کی صورت دیکھتے ہی پوچھتی ہیں:
"آج بھی نہیں ملی؟"
تو یہ اصل میں بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں۔ جب تم بڑے ہو جاؤ گے اور فیروزاللغات دیکھنا کھوجنا جان جاؤ گے تو ناداری ، بھوک ، غم ، پتھراؤ ، ڈھانچے جیسے الفاظ کے معانی تمہیں بھی اچھی طرح سمجھ میں آ جائیں گے۔ اس وقت تمہارا کام تو صرف یہ ہے کہ مہینے کے پہلے اور آخری ہفتہ میں کوئی گلاس نہ توڑنا۔
اس مال کی دھن میں پھرتے تھے
تاجر بھی بہت ، رہزن بھی کئی
ہے چور نگر، یا مفلس کی
گر جان بچی تو آن گئی
بچو ! یہ دراصل سیاسی شعر ہے۔ سیاست ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اس کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہ ایسا مال ہے کہ تاجر ، رہزن ، چور اچکے سب اسی کی چاہ میں دیوانے ہوئے جاتے ہیں۔ عوام بچارے چونکہ مفلس ہوتے ہیں لہذا بڑی مشکل سے زندگی گزارتے ہیں کبھی جان پر بن جائے تو آن قربان کر دیتے ہیں۔ ویسے بھی آن کی قربانی ہماری مجبوری ہے۔ ہم جس اسلامی ملک میں رہتے ہیں وہاں جان بچانے کے لیے وقتاً فوقتاً ایسی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اسے قومی مجبوری بھی کہا جا سکتا ہے۔
یہ ساغر، شیشے، لعل و گہر
سالم ہوں تو قیمت پاتے ہیں
یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں، تو فقط
چبھتے ہیں، لہو رلواتے ہیں
عزیر بچو ! اس شعر میں شاعر اتحاد امت کا درس دے رہا ہے۔ اس نے تشبیہات اور مثالوں کے ذریعے اپنی بات سمجھائی ہے۔ جیسا کہ دیکھو کچن میں کراکری کتنی خوبصورت نظر آتی ہے اگر ہر چیز اپنی جگہ موزونیت اور مناسبت سے سجائی جائے۔ ورنہ کوئی گلاس بستر پر ، کوئی پیالی صوفے پر ، کوئی پلیٹ کمپیوٹر ٹیبل پر ہو تو ذرا سی لاپروائی پر نیچے گر کر ٹوٹتی ، ہاتھ پاؤں میں چبھتی اور خون بہاتی ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ میں فلاں مسلک کا ہوں تو فلاں طبقہ کا ہے ، تیرا فرقہ یہ ہے میرا فرقہ یہ ہے ، تو یہ ہے میں وہ ہوں ۔۔۔۔ یہ میری جگہ ہے ، تو وہاں جا یہاں مت رہ ۔۔۔۔ تو آپس میں دنگا فساد ہوتا ہے خون کی ندیاں بہتی ہیں اور اتحاد امت پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]