گذشتہ روز میں اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرے موبائل پر ایک مختصر پیغام خدمت( SMS ) موصول ہوا۔ جب میں نے اس پیغام کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ کسی انجان موبائل نمبر سے یہ پیغام بھیجا گیا ہے،وہ پیغام کیا تھا پہلے آپ لوگ پڑھ لیں پھر اس کے بعد ہم بات کریں گے۔
پیغام ان الفاظ سے شروع ہوا ”یہ ایس ایم ایس کنفرم ہے۔ اس کو اتنا زیادہ پھیلائیں کہ نائک اور پوما کمپنی تباہ ہوجائے، کیوں کہ ان کمپنیوں نے توہین رسالتﷺ کی ہے اور جوتوں کے تلوے پر اللہ اور محمدﷺ کے نام چھاپے ہیں، پلیز اس میسج کو عام کریں“۔ یہ پیغام موصول ہونے کے بعد ہم نے اس نمبر پر جوابی پیغام بھیجا کہ ”جناب میں نے تو نیٹ پر ان تصاویر کو پیش کیا تھا اور لوگوں کو اس فتنے سے آگاہ کیا تھا لیکن بات یہ ہے کہ پوما یا نائک کمپنی محض ایس ایم ایس کرنے سے تباہ و برباد نہیں ہوگی بلکہ اس کے لیے ہمیں قربانی دینی ہوگی اور ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہوگا اور میں آپ سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ جب توہین قرآن و توہین رسالت ﷺ کے معاملے پر دینی جماعتیں اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہی تھیں تو کیا آپ احتجاجی مظاہروں اور جلسوں میں شریک ہوتے تھے یا اس کو نظر انداز کردیتے تھی؟“ لیکن پیغام بھیجنے والے نے ہمارے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا آپ کے پاس بھی ایسے پیغامات موصول ہوتے ہوں گے جن میں اسی قسم کی باتیں ہوتی ہوں گے اور اس کے ساتھ ہی یہ درخواست بھی ہوتی ہوگی کہ اس پیغام کو تمام لوگوں تک پھیلائیں یا کئی پیغامات اس طرح کے ہوتے ہیں کہ جن کے آخر میں یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ اس پیغام کو غلط سمجھ کر رد کرنے کی کوشش نہ کریں اور اس کو کم از کم دس لوگوں تک پہنچائیں تو آپ کو انشاءاللہ دو دن میں ایک خوشخبری ملے گی اور جن لوگوں نے اس پیغام کو نظر انداز کیا ان کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ لوگوں کو انجان نمبرز سے ایسے پیغامات بھی موصول ہوتے ہوں گے جن میں کوئی حدیث بیان کرکے اس کو آگے بڑھانے کی درخواست کی جاتی ہے۔ یہ باتیں پڑھ کر کوئی عموماً لوگ جذباتی ہوجاتے ہیں اور فوراً ہی ایسے پیغامات کو ایک دینی خدمت سمجھ کر آگے بڑھادیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عام طور سے مزاحیہ اور فحش پیغامات بھی لوگوں کو موصول ہوتے ہیں۔ ہم یہ سوچ کر شاید ہمارے کسی ایسے دوست یا عزیز جس کا نمبر ہمارے پاس محفوظ نہیں ہے اس نے یہ پیغام بھیجا ہے اس پیغام کو یا تو نظر انداز کردیتے ہیں یا پھر فوری طور پر آگے بڑھا دیتے ہیں جبکہ ہمارے معلومات اور تحقیق کچھ اور ہی کہانی سنارہی ہی، اس طرح کے پیغامات دو ذرائع سے عام کیے جارہے ہیں، پہلا ذریعہ موبائل فون کمپنیاں خود ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق موبائل کمپنیز نے ایک شعبہ قائم کیا ہوا ہے جو کہ صارفین کو پیغامات بھیجتا ہے اور اس کے تین ذیلی شعبہ جات ہیں۔ پہلا شعبہ مذہبی اور اسلامی پیغامات ارسال کرتا ہے، دوسرا مزاحیہ پیغامات ارسال کرتا ہے جبکہ تیسرا فحش پیغامات ارسال کرتا ہے اور پھر یہ شعبہ جات جائزہ لیتے ہیں کہ کس شعبہ کی جانب لوگوں کا رجحان ہے تو پھر اس طرح کے پیغامات زیادہ سے زیادہ ارسال کیے جاتے ہیں تاکہ اس طریقے سے ان کی SMS سروس زیادہ سے زیادہ استعمال ہو۔ جبکہ مذہبی، اسلامی پیغام اور احادیث پر مبنی پیغامات بھیجنے والا ایک دوسرا گروپ ہے اور ہماری معلومات کے مطابق یہ گروپ منکرین حدیث، اور قادیانی لابی پر مشتمل ہے یہ گروہ انفردی طور پر یہ کام کررہے ہیں۔ اب لوگوں کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ گروہ منکرین حدیث یا قادیانی لابی کا ہے تو پھر یہ مذہبی پیغامات کیوں بھیجتا ہے؟ یہ سوال بڑا اہم ہے، اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کو ایسا کوئی پیغام موصول ہو تو آپ ذرا سا غور کریں گے تو یہ بات واضح ہوگی کہ بظاہر اسلامی پیغام میں کسی دینی شعار یا رکن کا انکار کیا گیا ہوگا یا جو حدیث بیان کی گئی ہوگی اس کا کوئی حوالہ موجود نہیں ہوگا۔ یا پھر کوئی غلط پیغام پہنچے اور وہ گمراہ ہوجائیں اور اگر کوئی فرد محسوس کرے کہ یہ بات تو اسلامی تعلیمات کے منافی ہے تو پھر وہ قرآن و حدیث سے نعوذ باللہ متنفر ہوجائے۔ ہر دو صورت میں ان کا مقصد پورا ہوگا ہم اپنی بات کے ثبوت میں یہ پیغام آپ کو پڑھواتے ہیں۔ پیغام یہ تھا کہ ”حدیث مبارکہ: اگر کوئی شخص رمضان کا روزہ نہ رکھے لیکن وہ کسی روزہ دار کو افطار کرائے تو اس کو روزہ دار سے دس گنا زیادہ اجر ملے گا۔ براہ مہربانی اس ایس ایم ایس کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں“۔ جو حدیث اس پیغام میں بیان کی گئی وہ کم از کم میں نے پہلے کبھی نہیں سنی نہ پڑھی تھی اور ہماری ناقص معلومات اور محدود علم کے مطابق اصل حدیث یہ ہے کہ آپ لوگ بھی پڑھیں یہ ترمذی کی حدیث ہے، جس کا مفہوم ہے کہ ”اگر کوئی شخص کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرائے گا تو اللہ اسے بھی روزہ دار کے برابر اجر عطا فرمائیں گے اور روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی“ (اللہ تعالیٰ اس میں کمی بیشی کو معاف فرمائے) یہاں اس حدیث میں کہیں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں کہ کوئی فرد روزہ نہ رکھے لیکن پیغام میں اس الفاظ کا اضافہ کرکے پوری حدیث کا معنی و مفہوم تبدیل کردیا گیا۔ یہ پیغام ہمیں اپنے ایک دفتری ساتھی کے نمبر سے موصول ہوا اور وہ وہیں موجود تھے۔ ہم نے پوچھا کہ بھائی آپ کو یہ پیغام کس نے بھیجا تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک نمبر سے ملا تھا جسے میں نہیں جانتا لیکن چوں کہ پیغام اچھا ہے اس لیے میں نے اس کو آگے بڑھادیا۔ پھر میں نے اس سے سوال کیا کہ اچھا اگر کوئی فرد روزہ نہ رکھے اور محض اس روزہ دار کو افطار کرانے سے ہی روزے سے زیادہ اجر مل سکتا ہے تو بھائی پھر روزے کو فرض کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر یہ بات درست ہے تو پھر روزے کون رکھے گا؟ کیوں کہ جب بغیر بھوکا پیاسا رہے بغیر روزہ رکھے، دس گنا زیادہ اجر مل جائے گا تو پھر کسی کو روزہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہماری بات پتا نہیں ان کی سمجھ میں آئی یا نہیں آئی لیکن اس کے بعد انہوں نے پیغامات آگے بڑھانے میں احتیاط شروع کردی۔اسی طرح ہمارے پاس ایک دن ایک اور پیغام بھی آیا آپ بھی پڑھیں اور پھر سوچیں کہ اس پیغام کا مفہوم کیا نکلتا ہے۔ ”اگر آپ کے پاس فری میسجز ہیں اور آپ اپنے نبیﷺ سے محبت کرتے ہیں تو ایک بار درود شریف پڑھ کر یہ ایس ایم ایس کم از کم دس لوگوں تک پہنچائیں۔ انشاءاللہ آج ہم اپنے پیارے نبیﷺ کو ایک لاکھ درود کا تحفہ دیں گے“۔ یہ بھی بظاہر ایک بہت اچھا پیغام ہے لیکن پیغام کی ابتداءمیں یہ کیا کہا جارہا ہے(اگر آپ کے پاس فری میسجز ہیں تو) یعنی نبی مہربانﷺ سے ہماری محبت اتنی ہی ہے کہ اگر اگر اگر اگر! فری میسجز ہوں تو آگے بڑھائے جائیں اور اگر میسج فری ہوں نہ ہوں تو ہم اپنے نبی مہربانﷺ کو درود شریف کا تحفہ بھی نہیں دے سکتے؟؟؟ (نعوذ باللہ) کیا یہ نبی مہربانﷺ سے محبت کی جارہی ہے یا معاذ اللہ ان کی توہین کررہے ہیں؟ اور اگر درود شریف کا تحفہ ہی دینا ہے تو بجائے اس کے کہ ہم ایس ایم ایس کریں کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم خود دس دفعہ درود شریف پڑھ لیں، اس بات پر غور کرنا چاہیے۔ دراصل ہونا یہی چاہیے کہ جب ہمارے پاس کوئی پیغام موصول ہو تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ پیغام بھیجنے والا کون ہی؟ آیا کوئی انجان فرد ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے یا ہمارا کوئی جاننے والا یا عزیز ہے؟ پھر یہ دیکھیں کہ پیغام کیا ہے،کہیں ایسا تو نہیں کہ بظاہر بہت اچھے پیغام کی تہہ میں کوئی اور بات ہو۔ اور جہاں بھی آپ کو ذرا سا بھی شبہ ہو تو اس پیغام کو آگے بڑھانے سے گریز کریں اور اگر آپ نیکی ہی کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ کریں کہ بجائے کسی گمنام فرد کے پیغام کو آگے بڑھائیں بلکہ یہ کریں کہ کسی مستند عالم کا ترجمہ قرآن سے کوئی آیت منتخب کریں اور اس کو دوستوں کو ارسال کریں یا حدیث کی کوئی مستند کتاب لیں اور اس سے کوئی مختصر حدیث نبویﷺ منتخب کرکے آگے بڑھائیں اور فتنوں کے اس دور میں نہ صرف خود فتنوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کریں بلکہ لاعلمی میں کسی فتنے کا آلہ کار بھی نہ بنیں۔
مضمون نگار : ابو عبد اللہ۔
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]