عصر حاضر کے صلیبی خواہ کتنے ہی مسلّح کیوں نہ ہوں۔نہتے مسلمانوں کی دو چیزوں سے اُنہیں بڑا خوف آتا ہے۔ ایک ڈاڑھی ایک برقعہ۔برقعہ ہی پر کیا موقوف؟ اِسلامی حجاب کی ہرشکل اُن کے اعصاب پر ایک بم بن کر گرتی ہے۔ اِسکارف اصلاً اِسلامی پہناوا نہیں ہے۔ مسیحی راہباؤں کی اوڑھنی ہے۔مگر مغرب میں مسلمان بچیوں نے اِسی کو غنیمت جانا اور اپنے سر پر باندھ لیا۔ اِسکارف کا مسلمان بچیوں‘ لڑکیوں اور خواتین کے سر پر بندھنا تھا کہ مارے خوف کے صلیبیوں کے سربراہوں کی بھی گھگی بندھ گئی کہ:” ضبط‘ نظم اور قانون خطرے میں ہے۔ پوری تہذیبِ موزون خطرے میں ہے“۔کچھ یہی حال ڈاڑھی کا ہے۔ اِدھرکوئی ڈاڑھی والا مسلمان نظر آیا۔ اُدھر اُن کے ذہن میں طالبان کا ہیولا اُبھرا۔ آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔ ایک بار ائرپورٹ پر کچھ امریکی سفارت کار اپنے سفارت خانے کی گاڑی سے اُتر رہے تھے کہ ایک مولوی صاحب بڑا سا صافہ سر پر باندھے اور لمبی سی ڈاڑھی مُنہ پر رکھے اپنی ننھی منی بچی کو سڑک پر اُتر جانے سے روکنے کے لیے اُدھر کو بھاگے۔ ہٹے کٹے امریکی گھبرا کر اور بھربھرا کر اپنی گاڑی میں واپس گھس گئی....” ٹیلبان.... ٹیلبان“ کہتے ہوئے۔ڈاڑھی کا خوف ان صلیبیوں کو اِس قدر ہے کہ کوئی باریش مسلمان اُن کا قیدی بن جائے تو اکثر پہلاکام یہی کرتے ہیں کہ اُس کی ڈاڑھی مونڈھ دیتے ہیں۔ خواہ وہ جزائر مالٹا کے قیدی ہوں یا خلیج گوانتانامو کے۔
........ گذشتہ دِنوں بحیرہ عرب کے کنارے آباد شہر کراچی میں ایک دِلچسپ واقعہ رُونُما ہوا۔ ہوا یوں کہ ”چَہ چَہ چَہ....چَیں“ کرنے والا جِلٹ جی ٹو بلیڈ بنانے والی کمپنی نے گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام لکھوانے کی آرزوکی ۔مختصر وقت میں2500 پاکستانی مسلمانوں کی ڈاڑھیاں مونڈھ ڈالنے کا عزم بالجزم کیا۔اور ایکسپو سینٹر کا ہال نمبر 6 بُک کروالیا۔ مفت میں ڈاڑھیاں منڈھوانے والوں کی بڑی خاطر تواضع کا اہتمام تھا۔ اُنہیں قیمتی شیونگ کریم‘ جدیدجلٹ ریزرز اور کمپنی کی ٹی شرٹ بانٹی جانی تھی۔ ہرکرسی کے سامنے اِس سامان کے علاوہ ایک کپ اور کھانے پینے کی اشیاءرکھی ہوئی تھیں۔گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کے نمائندے بھی 2500 مُنڈھی ہوئی ڈاڑھیوں کو ریکارڈ کرنے لیے مستعد اور”چُستعد“موجود تھے۔
........ ابھی ڈاڑھیاں منڈھوانے کا مقابلہ شروع نہیں ہوا تھا کہ مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے باریش طلبہ اپنی اپنی ڈاڑھیاں لہراتے ہوئے ہال میں داخل ہوگئے۔ اُنہوں نے کام صرف اِتناکیا کہ پانی سے بھری ہوئی بوتلیں اُٹھاکر اُن کا پانی ڈاڑھیاں مونڈھنے اور مُنڈھوانے والوں پر پھینکنا شروع کردیا۔ہال میں ہڑبونگ مچ گئی اور ایک عجیب قسم کی بھگدڑ۔نہانے دھونے اور بارش سے لطف اندوز ہونے والا اچھا خاصا انسان نہ جانے کیوں اپنے آپ پر پانی پھینکے جانے سے بہت ڈرتا ہے۔متاثرین ہی نہیں منتظمین بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب یہ پتاچلا کہ ہال کے باہر بھی لوگ مسلمانوں کی ڈاڑھیاں مونڈھ مونڈھ کر ریکارڈ قائم کرنے کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں توگنیز بُک آف ورلڈریکارڈ والے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔نہیں معلوم کہ یہ بات گنیز بُک آف ورلڈریکارڈ میں لکھی جائے گی یا نہیں کہ وہاں ریکارڈ قائم کرنے سے بھاگ کھڑے ہونے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا۔
........ یہ بھی ایک عالمی ریکارڈ ہی ہے کہ جس ملک پرصلیبیوں کی تہذیبی یلغار زوروں پرہو اور جس ملک میں پرویز مشرف طبلچی اور اُس کے ہمنوا ڈھولچی دانشور گذشتہ بیس برسوں سے برقعہ‘ ڈاڑھی اور دیگر اِسلامی شعائر کے خلاف باقاعدہ سرکا ری مہم چلارہے ہوں ‘ میڈیا پر مسلسل چیخ پکارفرما رہے ہوں‘ اُس ملک کے صرف بوڑھے نہیں‘ نوجوان بھی ”ڈاڑھیاں رکھنے“کاعالمی ریکارڈ قائم کررہے ہیں۔”جسارت“ کے سابق مدیرِ منتظم محترم عرفان غازی کا ایک کالم روزنامہ ”اُمت“ میں شائع ہواہے ۔اپنے کالم میں اُنہوں نے رائے عامہ کے ایک ایسے سروے کا ذکر کیا ہے جس سے پرویز ہود بھائے جیسی” سیکولر مبلغین “ پریشان ہوگئے ہیں۔سروے کے مطابق اٹھارہ سال سے ستائیس سال کی عمر کے دوہزار نوجوانوں سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اُن کی کون سی شناخت فوقیت رکھتی ہی؟ تواُن میں سے 75 فیصد نے جواب دیا : ”ہم پہلے مسلمان اورپھر پاکستانی ہیں“ جب اُن سے پوچھا گیا : ”پاکستان کے موجودہ مسائل کیسے حل ہوں گی؟“ تو 86 فیصد نوجوانوں نے یہ جواب دیا : ”اِسلام کے بنیادی اُصولوں کی طرف لوٹ جائیں۔ ہرمسئلہ حل ہوجائے گا“۔ پرویز ہود بھائے نے ان ”بنیاد پرستانہ“ جوابات پرشدید تشویش کا اظہارکرتے ہوئے قراردیا کہ: ”یہ نوجوان دراصل (پرویز مشرف کے بجائے) ضیاءالحق سے متاثرہیں“۔ غازی صاحب نے ہود بھائے کی بوکھلاہٹ کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کراتے ہوئے لکھاہے: ”ان(نوجوانوں) میں سے اکثر تو جنرل ضیاءالحق کے دورِ حکومت میں پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ باقی اتنے کمسن تھے کہ کسی نظریاتی فکرکو سمجھنے کے قابل ہی نہ تھے۔ان کے ذہن میں اپنے گرد وپیش سے آگاہی کی صلاحیت تو جنرل مشرف کے دور میں پیدا ہوئی“۔ برسوں سے لادینیت کازہر مسلسل اور متواتر پاکستانی نوجوانوں کے ذہن میں اُتارنے والے اِن دانشوروں کی انتھک کوششوں کا یہ انجام؟ یہ بھی ایک ”عالمی ریکارڈ“ نہیں تو اور کیاہی؟۔
مضمون نویس: ابو نثر
ادارہ’’سنپ‘‘ صاحب ِ مضمون کا ہمہ تن مشکور و ممنون ہے۔یاد آوری جاری رکھنے کی التماس۔[شکریہ]